ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پشہ ور پیروں کے یہاں کھانے کے لنگر جاری ہیں اوڑھنے کو گدے لحاف ملتے ہیں اور پنجاب میں پیر پرستی کا خاص اہتمام ہے نیز پیروں کو آمدنیاں بھی ایسی ہی ملتی ہیں اس لئے خوب لوٹتے ہیں لٹاتے ہیں اس لئے وار دین کی یہی عادت ہو گئی لیکن عدالت میں کوئی مقدمہ لے کر جاوے اور کوئی شخص اس سے پوچھے کہ کیوں بھائی تحصیلدار یا کلکٹر نے تم کو لحاف بچھونا دیا تھا یا نہیں یا تیری گھوڑی کو گھاس دانہ دیا تھا یا نہیں اور تجھ کو روٹی کھانے کو دی تھی یا نہیں تو یہی شخص اس کو پاگل بنائے گا اور کہے گا کہ پاگل ہوئے ہو میں اپنے کام سے گیا تھا اس لئے حکام کو ان چیزوں سے کیا تعلق تو یہ علت تو مشائخ کے درباروں میں بھی مشترک ہے پھر پیر ہی کو اپنا مطیع اور خدمتی کیوں سمجھتے ہو کیا ان کے پاس ان کے کسی کام کو آئے ہو جب یہ نہیں تو ان سے کیوں ایسی توقعات رکھتے ہو ۔ (521) بے قاعدہ اور بے اصول بات ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خود یہی بڑی غلطی ہے کہ ایک دم اتنا بڑا کام شروع کر دیتے ہیں جس کام کا آدمی سنبھال نہ سکے نباہ نہ سکے اس کام کو کرے ہی کیوں اور اگر کرے بھی تو چھوٹے پیمانہ پر شروع کرے پھر اللہ تعالی اپنے فضل سے کوئی آمدنی کی سبیل فرما دیں تو جس قدر آمدنی بڑھتی رہے کام کو بڑھاتے رہیں جیسے بتدریج بچہ پرورش پاتا ہے اور ایسا ہی کام دیر پا اور مستقل بھی ہوتا ہے اور اسی کو قوت ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے مگر اس وقت اکثر مسلمانوں کے ہر کام میں صرف جوش ہوتا ہے اس وقت ہوش باقی نہیں رہتا اس وقت تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کو شائد منتہا سے بھی آگے پہنچا دیں گے مگر پھر کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد خبر نباشد ۔ سوڈے کی بوتل کاسا جوش ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ چھوٹا سا کام بھی نہیں رہتا وہی مثل صادق آتی ہے کھاؤں تو گھی سے نہیں جاؤں جی سے اور یہ بات بالکل ہی بے قاعدہ اور بے اصول ہے ۔ (522) ایک شخص کو آداب مجلس کی تعلیم ایک دیہاتی شخص حضرت والا سے بالکل مل کر آبیٹھا پھر اس پر بھی اور جھک کر کچھ کہنا چاہتا تھا فرمایا کہ میاں میری چھاتی پر کیوں چڑھا آتا ہے کیا مجھ کو بہرا سمجھا ہے اگر ذرا فاصلہ ہی سے بیٹھا ہوا کہتا تو کیا میں نہ سنتا جاؤ وہاں بیٹھو اور جو کہنا ہے کہو یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ ایک