مدرسہ قائم کرنے کا طریقہ |
درسہ قا |
|
ختم بخاری شریف کے سلسلہ میں حضرت مولانا ابرار الحق صاحب مد ظلہ العالی کا مکتوب گرامی اور حضرت قاری صاحبؒ کا جواب باسمہ سبحانہ وتعالی مکرمی جناب مولانا صدیق احمد صاحب زید لطفہ السامی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس وقت آپ کی خدمت میں دو باتوں کی گذارش کا داعیہ ہوا۔ ایک معاملہ ختم بخاری شریف کا ہے دوسرا معاملہ حالات خاصہ یعنی بیماری ومصائب وغیرہ میں ختم بخاری شریف کرنے اور کرانے کا اہتمام ۔ ختم بخاری شریف پر دعاء کا قبول ہونا اور مشکلات وتکالیف کے موقع پر اس کے ختم کی برکت سے سکون ملنا اور آسانی کی صورت پیدا ہوجانا یہ صرف اکابر کے مجربات میں سے ہے، البتہ ختم قرآن پاک یا تلاوت قرآن پاک پر دعاء کا قبول ہونا، اس سے پریشان کن حالات میں تسلی وتشفی کی صورتیں پیدا ہونا اس پر نہ صرف یہ کہ تجربات شاہد ہیں بلکہ یہ نص سے بھی ثابت ہے، اس لئے اس کا اختیار کرنا اہم ومؤکد ہے ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ختم بخاری شریف پر پہلے سے تاریخ کا تعین اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض جگہ عمومی وخصوصی دعوت ناموں کے ذریعہ اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے پھر آنے والوں کے لئے طعام کا بھی انتظام کیا جاتا ہے ، پھر یہ کہ حالات خاصہ میں اس کے ختم کا اہتمام کرنا جو کہ صرف ایک تجرباتی چیز ہے نیز یہ کہ اس میں نسبۃ دشواری بھی ہے مشقت بھی ہے ، اس کے بالمقابل جو چیز منصوس ہونے کے ساتھ ساتھ سہل وآسان بھی ہے اور سراپا خیر وبرکت ورحمت بھی ہے اس کو چھوڑنا حد سے تجاوز معلوم ہوتا ہے، اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اکثر مقامات پر جہاں بخاری شریف کا ختم ہوتا ہے وہاں ختم قرآن پاک کا ذکر بھی نہیں آتا اور نہ ایسے اجتماع میں ختم کرایا جاتا ہے ، ایسے معاملات سے غیر منصوس کی منصوص پر ترجیح عملاً لازم آتی ہے اس طرح کے ختم میں شرکت کے دعوت نامہ پر حاضری سے معذرت کردیا کرتا ہوں اور اس پر نکیر بھی ، لہذا آپ سے دریافت ہے کہ احقر کا یہ خلجان وعمل صحیح ہے یا نہیں اگر صحیح ہے تو تائید فرمادیں ورنہ اس کی اصلاح کی گذارش ہے ۔ والسلام ابرار الحق