مدرسہ قائم کرنے کا طریقہ |
درسہ قا |
|
تقریظ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(رحمۃ اللہ علیہ) الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔ اما بعد۔ اہل علم اور اہل نظر جانتے ہیں جن کی دعوت واصلاح کی تاریخ ، اہل اللہ بزرگان دین ، مشائخ ومصلحین امت کے فیوض وبرکات اور ان کی اصلاحی وتربیتی کارناموں پر نظر ہے کہ ان کی اصلاح وتربیت کے وسائل ان کے ارشادات ورہنمائی اور ان کے فیوض وبرکات کے شیوع وانتشار اور بقاء وحفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ان کے وہ افادات وملفوظات تھے جو انہوں نے اپنی مجالس عمومی وخصوصی میں ارشاد فرمائے یا وہ مکتوبات تھے جو ان حضرات نے بعض مخلص عقیدت مندوں اور طالبین حق ومعرفت کے رسائل وعرائض کے جواب میں لکھے یا لکھوائے ، ملفوظات مکتوبات کے ان مجموعوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک مختصر تعارفی وتمہیدی مقالہ میں پیش نہیں کی جاسکتی ۔ ہمارے اس عہد قرب وجوار اور علم وواقفیت کے دائرہ میں (بلا کسی تملق وتصنع کے لکھا جاتا ہے ) مولانا سید صدیق احمد صاحب مظاہری بانی جامعہ عربیہ ہتورا (ضلع باندہ) کی ذات انہیں ربانی علماء اور مربی ومصلح شیوخ میں ہے جن کو اللہ تعالی نے اخلاص وللہیت ، جذبہ اصلاح وتبلیغ ، فہم سلیم ، حقیقت شناسی اور حقیقت بینی اور راہ ِخدا میں جفا کشی وبلند ہمتی کے اوصاف سے متصف فرمایا ہے ۔ اور اظہار حق اور صحیح مشورہ کی جرأت بھی عطا فرمائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ فاضل عزیز مولوی محمد زید صاحب نے ان افادات وملفوظات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، یہ ایک قابل قدر اصلاحی وتربیتی ذخیرہ تھا جو ان کے مجالس کے ملفوظات ومکتوبات میں پھیلا ہوا تھا ، اس کا اندیشہ تھا کہ یہ بیش قیمت ذخیرہ یا تو امتداد زمانہ کے نذر ہوجائے یا خطوط ومکاتیب کے صفحات میں محدود رہ جائے ۔ مولانا محمد زید مظاہری ندوی صاحب قارئین معاصرین ، مدارس کے فضلاء طلباء ، طالبین حق اور اپنی اصلاح وتربیت کے خواہش مندوں کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک