مقدمہ طبع دوم
حامدا ومصلیا ومسلما!
مفتاح الاوزان کی ترتیب کے وقت اصل بات جو پیش نظر تھی وہ یہ تھی کہ بار بار ان مسائل کی ضرورت پڑتی ہے اورہربار نئے سرے سے حساب کرنا پڑتا ہے؛ اس لیے کیوں نہ ان چیزوں کو جمع کرلیا جائے۔
پھر جوں جوں کام آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے اس رسالہ کی طباعت کا داعیہ قوی ہوتا گیاتاکہ اس کا افادہ عام ہوسکے۔ رمضان البارک سے پہلے ہی مسودہ صاف کیا جاچکا تھا، رمضان شریف میں نظر ثانی کا کام مکمل کرکے شوال میں کتاب طباعت کے لیے دے دی گئی۔
کتاب چھپنے کی دیر تھی، نسخے ہاتھوں ہاتھ نکلتے چلے گئے۔ بندہ نے بہت سے نسخے دارالعلوم دیوبند اورمظاہر علوم سہارنپور، دارلعلوم رحمانیہ اوردارالعلوم حیدرآباد وغیرہ کے مفتیان کرام اوراساتذہ عظام کو اپنے ہاتھوں سے پہنچائے۔ جس کو دیا ساتھ ہی یہ عرض بھی کرتا گیا کہ غلطیوں اورخامیوں پر ضرور مطلع فرمائیں۔ حضرت مفتی راشد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا جمال الدین صاحب صدر مفتی دارالعلوم حیدرآباد وغیرہ نے بعض اغلاط کی طرف توجہ دلائی اوردوران مطالعہ ایک دو غلطیاں خود اس ناکارہ کی نگاہ سے بھی گذریں۔ ارادہ تھاکہ ان اغلاط کو سدھارنے کے ساتھ مزید کچھ اضافات اورترمیمات کے ساتھ طبع دوم کے لیے پریس کو دوں گا، مگر ایک ایسے مخلص نے جب یہ کتاب دیکھی تو ان کو اس کی ترتیب اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے فوری طبع دوم کا ارادہ ظاہر کیا، دل ودماغ میں جو ترمیمات اوراضافات تھے، بیماری کی وجہ سے اتنی جلدی ان کو عملی جامہ پہنانا دشوار تھا، اورطبع دوم تاخیر بھی دل کو گوارہ نہ تھا، محض اغلاط کو سدھار کر نہایت معمولی ترمیم کے ساتھ کتاب کو طباعت کے لیے پیش کررہا ہوں۔
امید ہے نقش ثانی طبع اول سے بہتر ہوگا اورقارئین کی امیدوں پر زیادہ کھرا اترے گا۔
طبع اول کو دیکھ جن ناشرین نے اس کتاب کو اپنے اپنے مکتبات سے چھاپنے کا ارداہ کیا تھا وار اس ناکارہ نے اس بنیاد پر ان کو منع کردیا کہ مکمل اضافات اورترمیمات کے بعد اجازت دوں گا،
ان کو اب اجازت ہےکہ بلاحذف واضافہ ہوبہو طبع دوم کے مطابق اس کتاب کو چھاپ سکتے ہیں ۔