قولہ: وھو مثقال، ہذا ھو الصحیح، (بحر)۔۔۔ وأفاد أن الدرہم ھنا غیرہ فی باب الزکوۃ (ردالمحتار: ۱: ۵۲۲)
’’صاحب تنویر کا فرمانا کہ درہم ایک مثقال کا ہوگا، یہی صحیح ہے (بحر) نیز یہ بھی بتادیاکہ یہاں باب زکوۃ والا درہم مراد نہیں‘‘۔
اب سوال یہ ہےکہ درہم کی چوڑائی مراد ہے یا اس کا وزن؟ امام محمدؒ سے کہیں تو اس کی تفسیر میں ہتھیلی کی گہرائی منقول ہے، اورکہیں مثقال کا لفظ منقول ہے؛ اسی لیے مشایخ کا بھی اختلاف ہوا ہے؛ بعضوں نے وزن مراد لیا ہے، اوربعضوں نے چوڑائی۔ شیخ ابوجعفر ہندوانیؒ سے یہ تطبیق منقول ہےکہ نجاست جرم (جسم) والی ہوتو وزن کا اعتبار ہوگا، اورپتلی ہوتو پھیلاؤ کا اعتبار ہوگا۔ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں کہ:
زیلعی، زاہدی اورابن ہمام رحمہم اللہ سمیت بہت سے حضرات نے اسی کو اختیار کیا ہے :
لأن اعمال الروایتین إذا أمکن أولیٰ(شامی: ۱؍۵۲۲)۔
مثقال کا وزن تو دینار کے باب میں دیکھ سکتے ہیں۔ عرض کف کی چوڑائی کتنی ہوگی؟ مولانا رشید احمد صاحب نے احسن الفتاوی میں لکھ دیا ہے،تحقیق کے شائقین وہاں دیکھ لیں، آسانی کے لئے بس اتنا یادرکھیں
کہ ہتھیلی میں پانی رکھ کر ہتھیلی کو پھیلا دیا جائے، ہتھیلی میں جہاں تک پانی رکا رہے،
عرض کف سے وہی وسعت مراد ہے۔ (شامی: ۱؍۵۲۰)
نجاست خفیفہ کتنی معاف ہے
نجاست خفیفہ چوتھائی حصہ تک معاف ہے، چوتھائی سے زیادہ لگ جائے تو نماز نہیں ہوگی۔چوتھائی سے کیا مراد ہے؟پورے بدن اورپورے کپڑے کا چوتھائی، یا ہرعضو اورہرحصہ کا چوتھائی؟ مبسوط میں پہلے قول کو راجح کہا ہے، اورصاحب نہراورعلامہ حصکفیؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، لیکن تحفۃ الفقہاء، محیط، مجتبی اورسراج میں دوسرے قول کو صحیح کہا ہے، اورحقائق میں اسی کو مفتی بہ قرار دیاہے؛
اسی لئے شامیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے، اوراحتیاط بھی اسی میں ہے۔
(دیکھیے:ردالمحتار: ۱؍۵۲۴)