والإستار بكسر الهمزة بالدراهم ستة ونصف وبالمثاقيل أربعة ونصف كذا في شرح درر البحار (باب صدقۃ الفطر)
’’استار ساڑھے چھ درہم کا ہوتا ہے، اورمثقال سے ساڑھے چار مثقال کا ہوتا ہے‘‘۔
فقہ حنفی کی اکثر کتابوں میں ساڑھے چار مثقال کے بجائےساڑھے چھ درہم کا قول ہی لکھا ہے؛ اس لئے بعض لوگ اسی کو قول اصح خیال کرتے ہیں، مگر غور کیجئے تو پہلا وزن (ساڑھے چار مثقال) تحدیدی ہے، دوسرا وزن تقریبی ہے؛ دلیل اس کی یہ ہےکہ شامی ؒنے (باب صدقۃ الفطر میں)خود ہی لکھا ہےکہ
والمن بالدراهم مائتان وستون درهما وبالإستار أربعون
’’من دو سو ساٹھ درہم اوراستار سے چالیس استار کا ہوتا ہے‘‘
اب چالیس کو ساڑھے چھ سے ضرب دیتے ہیں تو من ۲۶۰ درہم کا ہوتا ہےاوررطل اس کا نصف ۱۳۰ درہم کا ہوتا ہے اوررطل کے بیان میںمعلوم ہوگاکہ ۲۶۰ درہم : من کا تقریبی وزن ہے اور۱۳۰ درہم رطل کا تقریبی وزن ہے۔ اس کے برخلاف چالیس کوساڑھے چار سے ضرب دیں گے تو من ۱۸۰ دینار کا اوررطل اس کا نصف یعنی: ۹۰ دینار کا ہوتا ہے،
اوررطل کے بیان میں معلوم ہوگا کہ ۹۰ مثقال رطل کا تحدیدی وزن ہے۔
الحاصل جب معلوم ہوچکا کہ استار کا تحقیقی وزن ساڑھے چار مثقال(دینار) ہے، تو اب ایک مثقال کے تولہ اورگرام کو ساڑھے چار سے ضرب دیںگے، تو مجموعہ وہی ہوگا جو اوپر لکھا گیاہے۔ مولانا مہربان علیؒ نے جو ۶۸۷ ملی گرام لکھا ہے، اس کو تقریبی کہہ سکتےہیں۔
النَوَاۃ
نواۃ(۵درہم): پندرہ گرام، تین سو نو ملی گرام (۱۵ گرام، ۳۰۹ ملی گرام)۔
نواۃ لغت میں کھجور کی گٹھلی کو کہتے ہیں، اہل عرب پانچ درہم کے وزن پر اس کا اطلاق کرتے ہیں؛ ابن منظور افریقیؒ لسان العرب میں لکھتے ہیں:
النش عشرون درہما، وھو نصف أوقیۃ؛ لأنھم یسمون الأربعین درہما أوقیۃ، ویسمون العشرین نشاً، ویسمون الخمسۃ نواۃ (مادۃ: نوی)