مگریہ فیصلہ بحری سفر پر جاری نہیں ہوسکتا۔ بحری جہاز کے کپتان سے تحقیق ہوئی کہ عام معمولی کشتی معتدل ہوا میں پانچ چھ میل بحری فی گھنٹہ طئے کرتی ہے،
ماہرین فن ملاحوں اورپاک بحریہ کے افسروں سے بھی اس کی تصدیق ہوئی؛ مجموعہ پانچ شہادتوں سے ثابت ہواکہ معتدل ہوا میں معمولی کشتی کی اوسط رفتار ساڑھے پانچ میل بحری فی گھنٹہ ہے؛
لہذا بحری سفر میں مسافت قصر کا حساب یوں ہوگا: تین دن = ۷۲گھنٹے ضرب ساڑھے پانچ = ۳۹۶ بحری میل‘‘ ۔ (احسن الفتاوی: ۴؍۸۶)
کچھ علمائے کرام کو اس پر خلجان ہےکہ بحری سفر میں قیام نہیں ہوتا، ان کا ماننا ہےکہ بحری سفر میں بھی قیام ہوتا ہے۔ لیکن یہ ناکارہ عرض کرتا ہےکہ بحری سفر میں اس قدر قیام نہیں ہوتا، جتنا بری پیدل سفر میں ہوتا ہے، کشتی چلتی رہتی ہے اورخوردو نوش اورآرام کا معاملہ بھی چلتا رہتا ہے؛
اس لیے مولانا رشیداحمدؒ کے فتوی پر اس ناکارہ کو کچھ اشکال نہیں۔ مفتیان کرام خود غور فرمالیں گے۔
ہوائی جہاز کا سفر
اگر ہوائی جہاز خشکی کے راستہ کے اوپر اوپر پرواز کررہا ہو تو برّی مسافت کا اعتبار ہوگا، اورسمندر کے اوپر پرواز کرتا ہو تو بحری مسافت کا اعتبار ہوگا، اس کو نہ دیکھیں گےکہ ہوائی جہاز تین دن میں کتنی مسافت طئے کرتا ہے؛ اس لیے کہ قصر کا اصل مدار اس پر ہےکہ خشکی یا دریا میں معتدل رفتار سے تین دن کا سفر ہوجائے، اگر اتنی مسافت تیز رفتار سواری کے ذریعہ جلدی طئے کرلی جائے، تو بھی قصر واجب ہوگا۔ (دیکھیے: احسن الفتاوی: ۴؍۸۲ باب صلاۃ المسافر)
قبر کی گہرائی
مستحب یہ ہےکہ قبر میت کے قد کے برابر یا سینہ تک گہری ہو، نصف قامت تک ہو تب بھی کوئی حرج نہیں؛ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: