’’بنواسد قبیلہ کے ایک صحابیؓ فرماتے ہیںکہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو سناکہ آپ ایک سائل سے کہہ رہے ہیں: جو شخص سوال کرے، حالاںکہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کے برابر مال ہو، تواس نے چمٹ کر سوال کیا(یعنی چمٹ کر سوال کرنےکی وعید میں داخل ہے) راوی کہتے ہیں کہ اس وقت اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا‘‘۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ زمان رسالت مآب ﷺ میں اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا، تو اوقیہ کا وزن حاصل کرنے کے لیےدرہم کے ٰوزن کو چالیس سے ضرب دیں گے؛ پس مجموعہ وہی حساب ہوگا جو اوپر لکھا گیاہے۔
الرِطْل
رطل:(۹۰ مثقال) تین سو ترانوے گرام، چھ سو ساٹھ ملی گرام۔(۳۹۳ گرام،۶۶۰ ملی گرام)
رطل: تینتیس تولہ ، نو ماشہ (۳۳ تولہ، ۹ ماشہ)
اس کی تفصیل یہ ہےکہ مد اورصاع کے وزن میں ائمہ اربعہ کے یہاںبالاتفاق رطل سے رطل بغدادی مراد ہوتا ہے۔ ہاں! رطل بغدادی کتنے درہم کا ہوتا ہے، اس کے بارے میں نہ صرف حنفیہ بلکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے، اس سلسلہ میں تین اقوال ملتے ہیں:
رطل: ایک سو اٹھائیس درہم کا ہوتا ہے۔(۱۲۸)
رطل: ایک سو تیس درہم کا ہوتا ہے۔(۱۳۰)
رطل: ایک سو اٹھائیس درہم، اور چاربٹہ سات درہم کا ہوتا ہے۔ (۷؍۴،۱۲۸)
علامہ ناصر الدین مطرزیؒ نے ابوعبیدؒ کے حوالے سے صرف پہلا قول لکھ کر سکوت فرمایا ہے، علامہ ابن ہمامؒ نے فتح القدیر(۲؍۲۹۶) میںصرف دوسرا قول لکھا ہے: والرطل زنة مائة وثلاثين درهما (رطل ایک تیس درہم کا ہوتا ہے) اوراسی کو اکثر حنفیہ نے نقل کیا ہے، لیکن علامہ شلبیؒ نے حاشیہ تبیین الحقائق میں تینوں اقوال لکھ کر محقق حنفیہ ابوحنیفہ ثانی امیر کاتب اتقانیؒ کے حوالے سے قول راجح کی تعیین بھی کی ہے؛
چنانچہ لکھتے ہیں: