’’سنت یہ ہےکہ سترہ مصلی سے تین ذراع سے زیادہ دور نہ ہو‘‘(حوالہ سابق)
اورتین ذراع کی مقدار ہے: ۱میٹر، ۳۷۱ ملی میٹر، ۶۰۰ میکرومیٹر۔
مسجد کبیر اورصغیر کی پیمائش
مسئلہ یہ ہےکہ نمازی کے سامنے سے گذرنا سخت گناہ ہے۔ لیکن اس میں تفصیل ہےکہ کتنی دورسے گذرنا جائز ہے؛ اگر کوئی چھوٹا کمرہ یا چھوٹی مسجد ہو تو بہرحال سامنے سے گذرنا جائز نہیں، یا توسترہ کا انتظام کرے یامصلی کے سلام کا انتظار کرے۔ اوراگرکھلی جگہ یا بڑاہال یا بڑی مسجد ہو، تو سجدہ کی جگہ نگاہ جمانے سے جہاں تک نگاہ پھیلتی ہو، اس کے آگے سے گذرنا درست ہے۔(ردالمحتار: ۲؍۳۹۸)
مسجدکبیرکی بابت دوقول ہیں: (الف)ساٹھ ذراع لمبی (ب) چالیس ذراع لمبی؛ دوسرا قول مختار ہے(ایضاً)چالیس ذراع کے اٹھارہ (۱۸)میٹر، دوسو اٹھاسی(۲۸۸) ملی میٹر ہوتے ہیں، اورفٹ سے ساٹھ فٹ ہوتے ہیں؛ کیونکہ ایک ذراع دیڑہ فٹ کا ہوتا ہے۔
کتنی مالیت کا سامان گم ہونے کا اندیشہ ہوتو نماز توڑدینا جائز ہے؟
دوران نماز ہانڈی ابل پڑی یا چور سامان لے کر بھاگ رہا ہےاوروہ سامان ایک درہم کی مالیت کا ہے تو نماز توڑ دینا درست ہے؛ خواہ نفل نماز ہویا فرض؛ عالمگیری میں لکھاہے:
رجل قام الی الصلاۃ فسرق منہ شیئ قیمتہ درہم لہ أن یقطع الصلاۃ ویطلب السارق سواء کانت فریضۃ أوتطوعا؛ لأن الدرہم مال (عالمگیری:۱؍۵۷)
’’ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوا، تبھی اس کی کوئی چوری ہوتی ہے جس کی قیمت ایک درہم ہے، تو وہ شخص نماز توڑ کر چور کا پیچھا کرسکتا ہے؛ خواہ فرض نماز ہو یا نفل؛ کیونکہ ایک درہم قابل لحاظ مالیت ہے‘‘۔
بہشتی زیور میں جو اس مسئلہ میں تین چار آنہ کا سامان لکھاہے، اس کی وجہ یہ ہےکہ اس وقت درہم کی مالیت تین چار آنہ تھی(خیرالفتاوی: ۲؍۴۶۸) ۔ آج درہم کی جو قیمت بازار میں ہو اسی کا اعتبار کیا جائےگا۔درہم کے بیان میں معلوم ہوچکاکہ ایک درہم : تین گرام اکسٹھ ملی گرام آٹھ سو میکروگرام کے مساوی ہوتا ہے۔