فقيل بأحد وعشرين فرسخا ، وقيل بثمانية عشر ، وقيل بخمسة عشر ، وكل من قدر بقدر منھا اعتقد أنه مسيرة ثلاثة أيام (فتح القدیر:۲: ۲۰ ط: زکریا)
’’بعض نے اکیس فرسخ کہا، بعض نے اٹھارہ فرسخ اوربعض نے پندرہ فرسخ۔ اورجس نے جوبھی مسافت بتلائی، اس کے خیال میں وہی تین دن کی مسافت تھی‘‘۔
علمائے ہند کی رائے
اکثرعلمائے ہند نے جو اڑتالیس میل انگریزی کہا ہے، اس کی بنیاد بھی یہی قول راجح ہے، ان کا خیال ہےکہ اب تین دن میں اسی قدر مسافت طئے ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے اس پر کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ یہ فتوی صحیح بنیاد پر قائم ہے۔
صاحب احسن الفتاوی کا رجوع
شروع شروع میں صاحب احسن الفتاوی حضرت مولانا رشید احمدلدھیانوی ؒ کو اس پر اشکال تھا؛ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھاہوا تھاکہ علمائے ہند کے فتوی کی بنیاد کچھ اور ہے، پھر جب مولانا مہربان علی بڑوتویؒ نے اصل صورت حال پیش کی تو ان کا اشکال جاتا رہا۔
ہمارے بعض حضرات اس اشکال وجواب کی حقیقت بھی سمجھنا چاہتے ہیں؛ اس لئے یہ ناکارہ تفصیل عرض کرتا ہے۔
ابھی معلوم ہواکہ فقہ حنفی میں جن لوگوں نے سفر کی مسافت میلوں اورفرسخوں سے طئے کی ہے، اس کی حقیقت بس اتنی ہےکہ جن کی نگاہ میں تین دن میں جتنی مسافت طئے ہوتی ہے، اسی کو مسافت سفر قرار دیاہے؛چنانچہ اس سلسلہ میں چاراقوال ملتے ہیں:
(الف)پندرہ فرسخ یعنی: ۴۵ میل شرعی (ب)سولہ فرسخ یعنی: ۴۸ میل شرعی
(ج) اٹھارہ فرسخ یعنی: ۵۴ میل شرعی (د)اکیس فرسخ یعنی: ۶۳ میل شرعی۔
صاحب احسن الفتاوی نے یہ سمجھاکہ علمائے دیوبند نے ، جو۴۸ میل کہا ہے، اس کا ماخذ یہی سولہ فرسخ والا قول ہے، اور یہ طئے ہےکہ سولہ فرسخ والے قول میں میل شرعی مراد ہے؛ لہذا علمائے ہند کے قول میں بھی