شافعیہ کے یہاں بھی یہی بات ملتی ہے:
ويقال هي قدر ثلاثمائة ذراع إلى أربعمائة ا هـ برماوي .
(حاشیۃ الجمل، باب التیمم)
صاحب درمختار نے جزماًصرف تین ہزار ذراع کہا ہے:
( قدر غلوة ) ثلاثمائة ذراع (درمختار مع الرد:۱؍۴۱۴ تیمم)
اور ہندیہ میں ظہیریہ کے حوالہ سے جزماً فقط چارسو ذراع لکھا ہے (باب التیمم)۔ اوراحتیاط ظہیریہ کے قول میں ہے (لان الاحتیاط فی باب العبادات واجب )؛اسی لئےفتاوی ہندیہ کے مرتبین نے اسی قول کو اختیار کیاہے۔ اوراوپر اسی قول کو میٹروں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ چونکہ احسن الفتاوی (۴؍۷۳ باب صلاۃ المسافر) میں تین سو ذراع والا قول لیا گیاہے؛ اس لیے غلوہ کو ایک سو سینتیس (۱۳۷) میٹر ،ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ملی میٹرکے مساوی لکھا ہے۔
المِیْل
میل شرعی حنفی(چار ہزار ذراع): ۱ کلو میٹر، ۸۲۸، میٹر، ۸۰۰ ملی میٹر
میل شافعی وحنبلی(چھ ہزار ذراع): دوکلو میٹر، سات سو تینتالیس میٹر، دو سو ملی میٹر
میل مالکی(ساڑھے تین ہزار ذراع، ایک ذراع چھتیس انگل):دوکلو میٹر، چارسو میٹر، تین سو ملی میٹر
اس کی تفصیل یہ ہےکہ میل شرعی کی بات حنفیہ کے یہاں تین اقوال ملتے ہیں:
۱ چار ہزار ذراع، یہی مفتی بہ قول ہے۔
۲ تین ہزار ذراع، یہ قول اول سے مختلف نہیں، جیساکہ بیان ہوگا۔
۳ چارہزار خطوہ؛ یعنی: چھ ہزار ذراع۔ یہ شافعیہ کا قول ہے، حنفیہ کے نزدیک قابل اعتماد نہیں۔
کئی کتب میں اس کی صراحت ہےکہ قول اول ہی قابل اعتماد ہے؛ چنانچہ علامہ شامیؒ ردالمحتار میں لکھتے ہیں:
قوله ( أربعة آلاف ذراع ) كذا في الزيلعي والنهر والجوهرة ، وقال في الحلية إنه المشهور كما نقله غير واحد منهم السروجي في غايته اه، وفي شرح العيني ومسكين والبحر عن