کیونکہ وہ امام ابویوسف کی آراء کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ابن ھمامؒ نے لکھا ہےکہ جہالت روات والی بات قابل تسلیم نہیں، البتہ یہ دوسری وجہ قابل قبول ہے۔
علامہ زیلعیؒ لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے ایک بات کہی ہے کہ امام ابویوسف کا قصہ تو صحیح ہےکہ انہوں نے اہل مدینہ کا صاع لےکر ناپا تو آٹھ رطل کے بجائےپانچ رطل اورایک تہائی رطل نکلا؛ مگر وہ رطل مدینہ کا تھا اورمدنی رطل تیس استار کا ہوتااورجن لوگوں نے آٹھ رطل کہا ہے، انہوں نے عراقی رطل مراد لیا ہے ، اورعراقی رطل صرف بیس استار کا ہوتا ہے؛ لہذا عراقی رطل سے بھی ایک صاع :ایک سو ساٹھ استار کا ہوتا ہے، اوررطل مدنی سے بھی (یعنی ۲۰ کو۸ سے ضرب دیجئے یا تیس کو ۵ رطل اور ثلث رطل سے، حساب ایک ہی ہوگا)۔ علامہ زیلعیؒ اس توجیہ کی تائید ان الفاظ میں کی ہے:
وھذا اشبہ؛ لأن محمداؒ لم یذکر خلاف أبی یوسفؒ،و لوکان فیہ لذکرہ؛ وھو أعرف بمذھبہ (تبیین: ۲؍۱۴۱،شامی: ۳؍۳۲۰، باب صدقۃ الفطر)
’’یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے (کہ امام ابویوسف اورطرفین کا مسلک ایک ہے) کیوں کہ امام محمدؒ نے اپنی کتابوں میں امام ابویوسفؒ کے اختلاف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، اگر اختلاف ہوتا تو ضرور ذکر فرماتے؛
کیوں کہ وہ امام ابویوسفؒ کا مسلک دوسروں سے زیادہ جانتے تھے‘‘۔
امام ابویوسفؒ کے رجوع کی کیا حقیقت ہے؟ اس کی مزید تحقیق ہم تھوڑی دیر بعد پیش کریں گے،
پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اوپر امام ابویوسفؒ اورطرفین کے اقوال کے درمیان جس طرح تطبیق پیش کی گئی ہے، اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیاکہ صاع کی بابت ائمہ حنفیہ وغیرحنفیہ کا بھی کوئی اختلاف نہیں؛کیوں کہ یہی توجیہ وتطبیق یہاں بھی چل سکتی ہے؛ حالاںکہ یہ بات سراسر غلط ہے؛
اگر سب کے نزدیک صاع کا وزن ایک ہی ہوتا تو حنفیہ کے نزدیک صدقہ فطر چونکہ نصف صاع گندم ہےاورشافعیہ وغیرہ کے نزدیک ایک صاع؛ اس لئے ان کے نزدیک صدقہ فطر ہم سے دوگنا؛