قوله ( مقدار نصف قامة الخ ) أو إلى حد الصدر، وإن زاد إلى مقدار قامة فهو أحسن كما في الذخيرة، فعلم أن الأدنى نصف القامة، والأعلى القامة ۔۔۔ والمقصود منه المبالغة في منع الرائحة ونبش السباع (ردالمحتار۲: ۲۳۴)
’’قبر کی گہرائی نصف قامت یا سینہ تک ہو، اوراگر قد کے برابر ہو تو زیادہ بہتر ہے، جیساکہ ذخیرہ میں لکھا ہے، معلوم یہ ہواکہ کم ازکم نصف قامت ہو، اوراعلی درجہ یہ ہےکہ بقدر قامت ہو ، اس کا مقصد یہ ہےکہ ممکن حد تک بدبو سے اوردرندوں کے دست برد سے بچایا جاسکے‘‘۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ خود میت ہی کو ناپ کر اس کا اندازہ مقرر کیا جائے گا، میٹروں سے کوئی خاص مقدار متعین کرنا تکلف ہوگا۔
کتاب الزکوۃ
نصاب زکوۃ
چھ سو بارہ (۶۱۲)گرام، تین سو ساٹھ (۳۶۰)ملی گرام چاندی،یاستاسی (۸۷) گرام،
چارسو اسی (۴۸۰)ملی گرام سونا۔
اس کی تفصیل یہ ہےکہ جس کے پاس دوسو درہم چاندی یا بیس دینار (مثقال) سونا ہو،یا اس مالیت کا تجارتی مال ہو،اوردین سے فارغ ہو، وہ صاحب نصاب کہلاتا ہے۔ اگریہ مال اس کے پاس ایک سال تک باقی رہا،
یا کم و بیش ہوتارہا، بالکل ختم نہ ہوا، اورجس دن سال مکمل ہورہا ہے، اس دن اتنا مال موجود ہے،
جو نصاب کو پہنچ رہا ہے، تو اس پر اپنے مال کا چالیسواں (ہرچالیس میں ایک) حصہ بطور زکوۃ نکالنا لازم ہوگا۔
اوردرہم ودینار کے بیان میں معلوم ہوچکاکہ درہم گرام سے: تین گرام، اکسٹھ ملی گرام، آٹھ سو میکرو گرام (۳ گرام، ۶۱ ملی گرام، ۸۰۰ میکرو گرام) کا اورتولہ ، ماشہ سے درہم: تین ماشہ، ایک رتی اوررتی کےپانچویں حصہ کا ہوتا ہے۔ اوردینار: چار گرام، تین سو چوہتر ملی گرام (۴ گرام، ۳۷۴ ملی گرام) کا اوررتی سے دینار: چھتیس رتی؛ یعنی: ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔