اسی عبارت کے ذیل میں علامہ ابن ہمامؒ نے یوں لکھا ہے:
والقفیز قیز الحجاج، وھو ربع الھاشمی (فتح: ۶؍۱۳)
’’قفیز سے قفیز حجاجی مراد ہے، جوقفیز ہاشمی کا چوتھائی ہوتا ہے‘‘۔
صاحب ھدایہ یہ فرمارہے ہیں کہ قفیز ہاشمی ایک صاع کے مساوی ہوتا ہے۔ اورابن ہمامؒ فرمارہے ہیں کہ قفیز حجاجی: قفیز ہاشمی کا چوتھائی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے دونوں میں تعارض ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ فتح القدیر کی عبارت میں قفیزہاشمی قدیم مراد ہے، جو چار صاع کا ہوتا تھا، ظاہر ہے قفیز حجاجی اس کا چوتھائی ہوتا ہے۔ اورہدایہ کی عبارت میں قفیز ہاشمی جدید مراد ہے، جوایک صاع کے مساوی ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے عراق کی زمین پر جو ایک جریب پر ایک قفیزگندم اورایک درہم خراج لگایا تھا؛ اس میں یہی قفیز ہاشمی جدید مراد ہے، جو ایک صاع کا ہوتا تھا (ردالمحتار: ۶؍۳۰۴)۔
العَرَق
عرق: (۳۰ صاع) چورانوے کلو، چارسو اٹھہتر گرام، چارسو ملی گرام
عرق :عین، را کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا زیادہ مناسب ہے ۔ عرق کھجور کی قمچیوں سے بنی ہوئی ٹوکری ہوتی ہے۔ اس کی مقدار کیا ہوتی ہے اس میں کافی اختلاف ہے؛دراصل اس کو سمجھنے سے قبل کفارہ ظہار کی بابت ائمہ کرام کا مسلک سمجھ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہےکہ کفارہ ظہار میں ساٹھ مسکینوں کو صدقہ دینا ضروری ہے؛ مگر صدقہ کی مقدار کیا ہوگی؟ امام مالکؒ اورامام شافعیؒ کے نزدیک ہر مسکین کو ایک مد گندم یا کھجور دینا کا فی ہے۔ اس حساب سے مجموعی مقدار ساٹھ مد؛ یعنی پندرہ صاع ہوگی۔وہ سنن ابوداؤد کی روایت سے استدلال کرتے ہیںکہ:
فَأُتِىَ رَسُولُ اللّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِتَمْرٍ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا (ابوداؤد: ۱؍۳۰۲ باب فی الظھار)
’’ رسول اکرم ﷺ کے پاس پندرہ صاع کے لگ بھگ کھجور آیا، جو اس مظاہر کو دے دیا گیا‘‘
ابوداؤد ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں: