مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اسی کو پونے دو رتی لکھا ہے جو تقریبی وزن ہے، اسی کو مولانا مہربان علیؒ اورمفتی عارف باللہ صاحب نے گرام میں تبدیل کردیا، تو مجموعہ ہوا:۲۱۳ ملی گرام، ظاہر ہے یہ بھی تقریبی وزن ہے، تحدیدی نہیں؛ تحدیدی وزن وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔
الدانِق
دانق: پانچ سو دس ملی گرام، تین سو میکرو گرام (۵۱۰ ملی گرام، ۳۰۰ میکرو گرام)
دانق: چار رتی اوررتی کا پانچواں حصہ
دراصل دانق: درہم کے چھٹے حصہ کو کہتے ہیں؛ چنانچہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:
وفي المصباح الدانق معرب وهو سدس الدرهم ــ ــ ــ وكسر النون أفصح من فتحھا (طحطاوی:۱: ۲۴۹)
’’مصباح میں ہےکہ دانق (دانگ ) کی عربی ہے، یہ درہم کا سدس ہوتا ہے، نون پر زیر پڑہنا زبر پڑھنےسے افصح ہے‘‘۔
لہذا درہم کے وزن کو چھ سے تقسیم کریں گے، تو مجموعہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہوا۔ یہاں بھی ’’الاوزان المحمودہ‘‘ میں تین میکرو ملی گرام لکھا ہے؛ جبکہ صحیح وزن: تین سو میکرو گرام ہے۔ کلکولیٹر کی اصطلاح سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے کاتب نے تین لکھا ہے۔ حساب کی اس جیسی بہت سی غلطیاں ’’الاوزان المحمودہ‘‘ میں ہیں، آئندہ میں اس کا بیان نہیں کروںگا، قارئین کو دلچسپی ہو تو خود ملاحظہ فرمالیں گے۔
جب یہ طئے ہےکہ دانق فقہاء کے یہاں درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے اوردرہم ہوتا ہے: پچیس رتی اوررتی کے خمس کا، توجب اس کو چھ سے ضرب دیں گے، تو مجموعہ : چار رتی، اوررتی کا خمس ہوگا اوریہی قیراط کا تحدیدی وزن ہوگا، لہذا بحرالجواہر میں جو دانق کو چار قیراط لکھا ہے اور اسی کو مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے رتیوں میں تبدیل کرکے سات رتی لکھا ہے، وہ تقریبی وزن ہے، اوراسی کو مولانا مہربان علیؒ نے گرام میں تبدیل کرکے: ۸۵۰ ملی گرام لکھا ہے، وہ بھی تقریبی ہے، تحدیدی نہیں؛ بلکہ صحیح یہ ہےکہ تقریبی وزن سے بھی بہت دور ہے۔بڑے حساب میں کافی فرق پڑجائے گا؛غور کیجیے کہ اگردانق کو سات رتی کا مانیں تو درہم اس کا چھ گنا بڑا بیالیس (۴۲) رتی کا ماننا ہوگا؛ حالاں کہ درہم مفتی محمدشفیع صاحبؒ کے نزدیک بھی صرف پچیس