لہذا دینارکے رتیوں کو بیس سے ضرب دیں گے، تو مجموعہ ساڑھے سات تولہ(۷ء۵) ہوتا ہےاوردرہم کے رتیوں کودوسو سے ضرب دیں گے، تو مجموعہ ساڑھے باون تولہ ہوتا ہے۔ علمائے دہلی کے نزدیک نصاب زکوۃکی یہی مقدار ہے۔اوردرہم کے گراموں کو دوسو سے اوردینار کے گراموں کوبیس سے ضرب دیں گے، تو مجموعہ ہوگا: چھ سو بارہ (۶۱۲)گرام، تین سو ساٹھ (۳۶۰)ملی گر ام چاندی، اورستاسی (۸۷)گرام، چارسو اسی (۴۸۰)ملی گرام سونا۔ موجودہ اوزان سے سونے چاندی کا یہی نصاب ہے۔
صدقہ فطر کا نصاب
جو نصاب زکوۃ کا ہے، وہی نصاب صدقہ فطر کا بھی ہے، مگر دونوں میں فرق یہ ہےکہ زکوۃ فرض ہونے کے لئےخاص کرسونے چاندی، روپئے پیسے یا مال تجارت کا اس مقدار میں ہونا لازم ہے، جو اوپر مذکور ہوا، جبکہ صدقہ فطر میں اگر آدمی عیدالفطر کی صبح ایسے سامان کا مالک ہے، جو روز مرہ کے کام میں نہیں آتا، خواہ تجارت کا مال ہویا نہ ہو، اوروہ مقدار نصاب کو پہنچ جائے تو صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔
نصاب قربانی
جس مقدارمال پر صدقہ فطر واجب ہے، قربانی بھی اسی مقدارپر واجب ہے، اس میں بھی مال کا سونے چاندی یا مال تجارت کی شکل میں ہونا ضروری نہیں۔جس قسم کے نصاب پر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے،اس نصاب کے مالک کو شریعت میں غنی (مالدار)کہتے ہیں۔ اورجس کے پاس اتنا مال نہ ہو، یا ہو مگر قرض سے فارغ نہ ہو، اس کو شریعت میں فقیر کہتے ہیں۔
جو غنی ہو اس کو زکوۃ، عشرہ، چرم قربانی کی رقم، فدیہ کی رقم، کفارے کا صدقہ، لقطہ، بینک انٹرسٹ، یا کسی قسم کا صدقہ واجبہ دینا جائز نہیں، نیز اس پر اپنے قریبی رشتہ داروں کا نفقہ واجب ہے۔اورجو فقیر ہو اس کے لیے ہرقسم کے صدقات وخیرات جائز ہیں، اوررشتہ داروں کا نفقہ واجب نہیں۔ الغرض وجوب قربانی، حرمان زکوۃ، وجوب نفقہ میں وہی نصاب ملحوظ ہوگا جوصدقہ فطر کے بیان میں مذکور ہے؛ وہ نہیں جو زکوۃ کے باب میں مذکور ہے۔