۳ اس موضوع کے احاطہ کی پوری کوشش کی گئی ہے۔
۴ اوزان، پیمانوں اورمساحتوں کو علاحدہ علاحدہ فصل میںبیان کیا گیا ہے۔
۵ سب سے پہلے ان اوزان کو رائج الوقت اوزان میں لکھا گیا ہے تاکہ عام قاری بھی پہلی نظر میں اپنا مقصود پالے، پھر معتبر کتب فقہ سے اس کی تفصیل لکھ کر یہ بتلایا گیا ہے کہ کس طرح موجودہ نظام میں تبدیل کیا گیا ہے تاکہ اہل علم بھی مطمئن ہوسکیں۔
۶ فقہائے حنفیہ وغیرحنفیہ نے بہت سے مقامات پراشارتاًاوراختصاراً تحدیدی وزن لکھنےکے بجائے تقریبی وزن تحریر فرمایا ہے، پھر دوسری جگہ اصل مقام پر تحدیدی وزن لکھا ہے؛ اس سے بظاہر ان کی عبارتوں میں ایک تو تعارض معلوم ہوتا ہے، دوسرے سرسری نظر میں پتہ نہیں چل پاتا کہ کون سا وزن تحدیدی ہے اورکونسا تقریبی ۔ اس رسالہ میں ایک تو اس قول کو لیا گیا ہے جس میں تحدیدی وزن کا بیان ہے، دوسرےجہاں ضرورت محسوس ہوئی ہے،آسان انداز میں تعارض کو حل بھی کردیا گیا ہے۔
۷ اوزان کا بیان مکمل ہوجانے کے بعد نصاب زکوۃ، مقدار صدقہ فطر، مہر فاطمی، مسافت سفر وغیرہ امور کو بیان کردیاگیا ہے، جن کی ضرورت اکثر وبیشتر پیش آتی رہتی ہے۔
ایک گذارش
ایک بات جو قابل عرض ہے، وہ یہ کہ مفتی محمد شفیع صاحبؒ، مولانا رشید احمد پاکستانیؒ، مولانا مہربان علی بڑوتویؒ اورمولانا ابوالکلام صاحب کے رسالوں میں کتابت کی بہت سی اغلاط ہیں، اورمسئلہ حساب کی باریکیوں سے متعلق ہے؛ اس لئے وہ اغلاط عام قاری کی گرفت سے باہرہیں، نیز بعض جگہ تقریبی وزن ذکر کیا گیا ہے؛ جبکہ بندہ نے ہرجگہ تحدیدی وزن لکھا ہے اوراس رسالہ کی کتابت خود سے کی ہے تاکہ ممکن حد تک کتابت کی اغلاط سے بچا جاسکے؛ اس لئے اگررسالہ ہذا کے اندراجات سابق کتابوں سے بظاہر کچھ مختلف نظر آئیں تو تردید میں جلدی نہ فرمائیں، غورو فکر سے کام لیں،حساب کا جائزہ لیں، پھر جو بات آپ کی نگاہ میں راجح ہواس پر عمل درآمد فرمائیں۔