تولید قمر کا مسئلہ
ابھی شرح وقایہ کے حوالہ سے جو قمری اورشمسی سال کی تفصیل لکھی گئی ہے وہ متفق علیہ نہیں، رصدگاہوں کا اس میں قدیم سے اختلاف رہا ہے؛ صاحب کافی لکھتے ہیں:
الشَّمْسِيَّةُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَخَمْسَةٌ وَسِتُّونَ يَوْمًا وَرُبْعُ يَوْمٍ وَجُزْءٌ من مِائَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا من الْيَوْمِ وَالْقَمَرِيَّةُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَأَرْبَعَةٌ وَخَمْسُونَ يَوْمًا كَذَا في الْكَافِي
(ہندیہ، باب العنین)
’’شمسی سال ۳۶۵ دن ۶ گھنٹے ۱۲ منٹ کا ہوتا ہے اورقمری سال ۳۵۴ دن کا ہوتا ہے‘‘۔
شمسی سال جو کافی میں مذکور ہےابرخس کی رصدگاہ کے مشاہدہ پر مبنی ہے۔
اب رصدگاہ ایلخانی کی روداد سنیے:
لأن السنة الشمسية ثلثمائة وخمس وستون يوماً وخمس ساعات وتسع وأربعون دقيقة على مقتضى الرصد إلا يلخاني والسنة القمرية ثلثمائة وأربعة وخمسون يوماً وثمان ساعات وثمان وأربعون دقيقة فيكون التفاوت بينهما عشرة أيام وإحدى وعشرين ساعة ودقيقة واحدة
(روح المعانی: سورۃ الکہف: ۲۵)
’’شمسی سال ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۹ منٹ کا ہوتا ہے اورقمری سال ۳۵۴ دن ۸ گھنٹے ۴۸ منٹ کا ہوتاہے؛
اس لیے دونوں میں ۱۰؍دن ۲۱ گھنٹے ایک منٹ کا فرق ہوگا‘‘۔
آپ مزید تفصیل شرح وقایہ کے حاشیہ میں مولانا عبدالحئیؒ کے قلم سے پڑھ سکتے ہیں(شرح وقایہ: ۲؍۱۴۱، حاشیہ نمبر۶)۔ اس تفصیل سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ حساب قطعی نہیں؛ ورنہ علمائے ہیئت کا اختلاف نہ ہوتا۔ یہ مشاہدہ پر مبنی ہے، جس نے جیسا مطالعہ کیا اس نےویسی ہی رائے دی۔
یہیںسے علامہ ابن تیمیہؒ کی یہ بات بھی بڑی وزنی معلوم ہوتی ہےکہ تولید قمر کا مسئلہ خود اصحاب ہیئت کے یہاں مختلف فیہ ہے، یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی جنتری کے حساب سے جس دن چاندکے ہونے کا