اس حساب سے من کا تحقیقی وزن ۲۵۷،۷؍۱ (دوستاون اورایک بٹہ سات درہم) ہوگا، اورجب اس کودرہم کے گرام سےضرب دیں گے، تومجموعہ ہوگا:(۷۸۷ گرام، ۳۲۰ ملی گرام)۔
اوریہ وہی وزن ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ معلوم ہواکہ من کو ۲۶۰ درہم کہنا تقریبی ہے،
تحقیقی نہیں۔اورمفتی محمدشفیع صاحبؒنے تولہ نیز مولانا مہربان علی صاحبؒ نے گرام اسی تقریبی وزن پر نکالا ہے، تحقیقی وزن پر نہیں؛ اسی لیے ان کا بیان کردہ وزن اس ناکارہ کے مجموعہ سے کچھ زائد ہے۔
من ہندی
یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم ہندوستانی اوزان میں بھی من کے نام سے ایک وزن ہے۔ وہ من اسّی (۸۰) تولہ کے سیر سے چالیس سیر کا ہوتا ہے، جس کا مجموعہ: ۳۷ کلو، ۳۲۴ گرام، ۸۰۰ ملی گرام ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ من ہندی : من عربی سے تقریباً پچاس گنا بڑا ہے۔
درہم دینار سے چھوٹے اوزان
القِیراط
قیراط: دوسو اٹھارہ ملی گرام، سات سو میکرو گرام
قیراط: ایک رتی، چار بٹہ پانچ رتی (۱ رتی، ۵؍۴ رتی)
درہم ودینار کی بحث میں معلوم ہوچکاکہ دینار بیس قیراط اوردرہم چودہ قیراط کا ہوتا ہے، پس قیراط درہم کا چودہواں حصہ اوردینار کا بیسواں حصہ ہوا، اب اگر دینار کے وزن کو بیس سے یا درہم کے وزن کو چودہ سے تقسیم کریں گے، تو قیراط کا وزن معلوم ہوگا؛ یعنی: دوسو اٹھارہ ملی گرام، سات سو میکرو گرام، جس کو تقریبا: دوسو انیس ملی گرام بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’الاوزان المحمودہ‘‘ میں سات میکرو ملی گرام بتایا ہے۔ اس میں دو غلطیاں ہیں: (الف) سات سو کو سات لکھا ہے؛ کیونکہ کلکولیٹراعشاریہ کے حساب میں کبھی ایک کبھی دوصفر چھوڑ دیتا ہے،اسی لیے کاتب نے اس کو سات سمجھ لیاہے۔(ب) میکرو گرام کو میکرو ملی گرام لکھا ہے۔
اگر تولہ کا حساب لیں، تودرہم : پچیس رتی اور رتی کا پانچواں حصہ ہوتا ہے، اس کو چودہ سے تقسیم کریں گے، تو قیراط: ایک رتی، پھر رتی کا چار خمس ہوگا؛ یعنی: پونے دو رتی سے کچھ زیادہ۔