لا زكاة في الفضة في أقل من وزن مائتي درهم شرعية، ووزنه خمسون وخمسا حبة من متوسط الشعير (بلغۃ السالک، باب احکام زکوۃ العین)
’’دوسو درہم سے کم چاندی میں زکوۃ نہیں، اوردرہم کا وزن متوسط جو سے پچاس جو اوردوخمس جو ہے‘‘۔
درہم کا یہی وزن فقہ مالکی، شافعی اورحنبلی کی معتبر کتابوں میں مذکور ہے۔
دینار شرعی(مثقال)
دینار: چار گرام، تین سو چوہتر ملی گرام (۴ گرام، ۳۷۴ ملی گرام)۔ دینار: چھتیس رتی؛ یعنی: ساڑھے چار ماشہ
اس کی تفصیل یہ ہےکہ حنفیہ کے نزدیک ایک دینار: بیس قیراط کا اورقیراط: پانچ جو کا ہوتا ہے؛ اس طرح دینار سو جو کا ہوتا ہے:
والدینار عشرون قیراطا، والدرہم اربعۃ عشر قیراطا، والقیراط خمس شعیرات، فیکون الدرہم الشرعی سبعین شعیرۃ، والمثقال مأۃ شعیرۃ
(درمختار مع شامی: ۲: ۲۹۶)
’’دینار بیس قیراط کا ہوتا ہے اوردرہم چودہ قیراط کا، اورقیراط پانچ جو کا؛ اس لئے درہم شرعی ستر جو کا اورمثقال (دینار) سو جو کا ہوگا‘‘۔
اورعلامہ شامی نے اس قول کی شرح میں فرمایا کہ یہ جو معتدل ہونے چاہئیں، جن کا چھلکا اتارا نہ گیا ہو، اور اس کے دونوں طرف جو لمبا تنکا دم کی طرح ہوتا ہے، وہ کاٹ دیا گیا ہو۔ یہی مضمون بحر، شرح وقایہ، مجمع الانہر اورجامع الرموز میں بھی ہے ۔(جواہرالفقہ:۳؍۳۹۳)
علمائے دہلی نے سو جو کو وزن کیا، تو چھتیس رتی ہوا ؛ یعنی: ساڑھے چار ماشہ۔ اور رتی: ایک سو ساڑھے اکیس ملی گرام کا ہوتا ہے؛ لہٰذا چھتیس رتی: چار گرام تین سو چوہتر ملی گرام کے برابر ہوا۔ امداد الاوزان میں کاتب نے چوہتر کے بجائے بہتر لکھ دیا ہے۔
واضح رہےکہ مثقا ل کا وزن وہی ہے جو دینار شرعی کا ہے، مثقال تو اس وزن کا نام ہے، خواہ سونے کی شکل میں ہو یا نہ ہو اوردینار جب ہوگا کہ اتنا وزن سونے کے سکے کی شکل میں ہو۔
صاحب احسن الفتاوی کا درہم ودینار