الينابيع أنه أربعة آلاف خطوة ؛ قال الرملي: والأول هو المعول عليه (ردالمحتار:۱؍۳۹۶ باب التیمم)
’’صاحب درمختار کا قول کہ میل چار ہزار ذراع کا ہوتا ہے؛ زیلعی، نہر اورجوہرہ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے اور(ابن امیرحاج حلبیؒ نے) حلیہ میں لکھا ہےکہ یہی قول مشہور ہے؛ جیساکہ کئی ایک حضرات نے اس کو نقل کیا ہے؛ انہیں میں سے ایک ابوالعباس سروجیؒ بھی ہیں، جنہوں نے غایۃ (شرح ہدایہ) میں اس کو نقل کیا ہے۔ البتہ شرح عینی، ملامسکین اوربحر میں ینابیع کے حوالہ سے منقول ہےکہ میل چار ہزار خطوہ (چھ ہزار ذراع) کا ہوتا ہے۔ رملیؒ فرماتے ہیںکہ پہلا قول ہی معتمد علیہ ہے‘‘۔
علامہ شامیؒ نے بحر کے حاشیہ منحۃ الخالق میں بھی یہی لکھا ہے، ہندیہ میں بھی اسی کو اقرب واصح قرار دیا ہے؛ چونکہ ان سب حضرات نے علامہ زیلعیؒ کے حوالہ سے ہی لکھا ہے ؛ اس لیے فخرالدین زیلعیؒ کی عبارت بھی ملاحظ کرلیں:
وأقرب الأقوال: الميل وهو ثلث فرسخ: أربعة آلاف ذراع بذراع محمد بن الفرج بن الشاشي طولها أربعة وعشرون إصبعا وعرض كل إصبع ست حبات من شعير ملصقة ظهرا لبطن ، والبريد اثنا عشر ميلا ذكره في الصحاح
(تبیین الحقائق:۱؍۱۱۸ باب التیمم، وہندیۃ، باب التیمم)
’’معتبر قول یہ ہےکہ میل تہائی فرسخ ؛ یعنی: چارہزار ذراع کا ہوتا ہے، محمد بن فرج شاشی کے ذراع سے، اوران کے ذراع کی لمبائی چوبیس انگل ہے، اورہرانگل چھ جو کے برابر ہے، جبکہ ایک کی پشت دوسرے کےپیٹ سے ملی ہوئی ہو۔ اوربرید بارہ میل کا ہوتا ہے، اس کو (جوہری نے) صحاح میں ذکر کیا ہے‘‘۔
مولانا عبدالحی لکھنویؒ نے اپنے فتاوی (۲۱۰، باب التیمم، ط:زکریا) میں تو ینابیع کا قول لیا ہے، مگر(ص: ۵۴۴ مسائل متفرقہ) میں تسلیم کرلیا ہےکہ یہ قول معتبر نہیں، معتبر وہی قول ہے جو زیلعی ؒ وغیرہ نے لکھا ہے۔
میل شافعی وحنبلی
ہاں بحر میں ینابیع کے حوالہ سے، جو چارہزار خطوہ لکھا ہے،جس کے چھ ہزار ذراع بنتے ہیں، وہ شافعیہ کا قول ہے؛ چنانچہ مغنی المحتاج میں لکھا ہے: