مسافت سفر
آدمی جب تین دن کے سفر کا ارادہ کرکے آبادی سے نکل جاتاہے تو مسافر ہوجاتا ہے، اورسفر پر مرتب ہونے والے تمام احکام اس پر جاری ہوتے ہیں؛ مثلاً: نماز میں قصر کرنا، رمضان کا روزہ مؤخر کرنا، قربانی کا واجب نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔
تین دن کے سفر کی مقدار کیا ہوگی؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مسافت سفرچار برید ہے، اوریہ معلوم ہوچکاکہ برید چار فرسخ، اورفرسخ تین میل شرعی کا ہوتا ہے؛ لہذا ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مدت سفر اڑتالیس میل شرعی ہوگا۔
حنفیہ کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق میلوں اورفرسخوں کا اعتبار نہیں، بلکہ اس کا لحاظ ہےکہ آدمی متوسط رفتار سے تین دن میں کتنی مسافت طئے کرسکتا ہے۔دن بھر چلنے کی بھی قید نہیں؛بلکہ عام طورپر قافلے جو پڑاؤ کرتے ہیں، وہ بھی سفر ہی شمار ہوگا۔ فقہائے حنفیہ نے تمام باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ لکھا کہ ہردن فجرسے زوال تک چلنا مراد ہے۔ شامی نے یہ بھی صاف کرنے کی کوشش کی ہےکہ سال کے معتدل ایام مراد ہیں، جب رات دن برابر ہوتے ہیں، یاسال کے سب سے چوٹے دن مراد ہیں؟
قہستانی کا رجحان پہلی رائے کی طرف ہے، جبکہ صاحب محیط، قاضی خاں، عتابی، صاحب بحر اورصاحب نہر دوسری رائے رکھتے ہیں، علمائے دیوبند کا فتوی دوسرے قول کے مطابق ہے۔
مشایخ حنفیہ کے اختلاف کی بنیاد
الحاصل مذکورہ تفصیل کے مطابق تین دن میں جتنی مسافت طئے کی جاسکتی ہو وہی مسافت سفر ہے، حنفیہ کے نزدیک راجح اورمفتی بہ قول یہی ہے، یہی ظاہر روایت ہے اورصاحب ہدایہ وغیرہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ اورجن مشائخ نے بھی فرسخوں اورمیلوں سے مدت سفر متعین کرنے کی کوشش کی ہے، وہ دراصل ان کے اپنے زمانے، یا علاقے کے اعتبار سے ان کا تجربہ ہے؛ اس لئے یہ کوئی حقیقی اختلاف نہیں؛ چنانچہ علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں: