روح المعانی (سورۃ الکہف آیت نمبر ۲۵ کی تفسیر)میں اسی قسم کا سوال امام رازی کے حوالے سے بھی اٹھایا گیا ہے اور اس کا جواب وہیں علامہ شہاب الدین خفاجی کے حوالے سے مذکور ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہےکہ عرب والے کسر کا حساب نہیں کرتے۔فتدبر وتشکر۔
عنین کو کتنے دن مہلت ملے گی
جو شخص کسی بیماری کی وجہ سے اپنی بیوی تک رسائی نہیں پاتا ہو اس کو فقہاء عنین کہتے ہیں۔ اگر عنین کی بیوی تفریق کا مطالبہ کربیٹھے تو قاضی شریعت اس کو ایک سال تک دوا علاج کی مہلت دے گا، اگر اس مدت میں بھی وہ صحبت پر قدرت نہ پاسکے تو بالاخر قاضی تفریق کردے گا۔ اس مسئلہ میں شدید اختلاف ہےکہ یہاںکون سا سال مراد ہے، قمری یا شمسی ؛فتاوی ہندیہ میں لکھا ہے:
تُعْتَبَرُ السَّنَةُ الْقَمَرِيَّةُ في ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ كَذَا في التَّبْيِينِ وهو الصَّحِيحُ كَذَا في الْهِدَايَةِ رَوَى الْحَسَنُ عن أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ تُعْتَبَرُ سَنَةٌ شَمْسِيَّةٌ وَهِيَ تَزِيدُ على الْقَمَرِيَّةِ بِأَيَّامٍ وَذَهَبَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيُّ في شَرْحِ الْكَافِي إلَى رِوَايَةِ الْحَسَنِ أَخْذًا بِالِاحْتِيَاطِ وَكَذَلِكَ صَاحِبُ التُّحْفَةِ وَهَذَا هو الْمُخْتَارُ عِنْدِي كَذَا في غَايَةِ الْبَيَانِ وهو اخْتِيَارُ شَمْسِ الْأَئِمَّةِ في الْمَبْسُوطِ وَاخْتِيَارُ الْإِمَامِ قَاضِي خَانْ وَالْإِمَامِ ظَهِيرِ الدِّينِ في التَّأْجِيلِ أَنَّهُ يُقَدَّرُ بِسَنَةٍ شَمْسِيَّةٍ أَخْذًا بِالِاحْتِيَاطِ كَذَا في الْكِفَايَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا في الْخُلَاصَةِ عن شَمْسِ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيِّ
(الھندیۃ: باب العنین)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہےکہ ظاہر الروایہ کے مطابق قمری سال کا اعتبار ہوگا، صاحب ہدایہ اورعلامہ فخرالدین زیلعیؒ نے اسی کو صحیح کہا ہے، جبکہ امام حسنؒ بن زیاد کی روایت کے مطابق شمسی سال کا اعتبار ہوگا؛ شمس الائمہ حلوانی، شمس الائمہ سرخسی، ظہیرالدین مرغینانی، علاء الدین سمرقندی (صاحب تحفۃ الفقہاء) قاضی خان اورابوحنیفہ ثانی امیرکاتب اتقانیؒ (صاحب غایۃ البیان) رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے؛ کیونکہ احتیاط اسی میں ہےکہ تفریق میں کچھ دن اورانتظار کرلیا جائے، جو مشکل سے گیارہ دن ہوتے ہیں۔