مکہ سے عسفان کا فاصلہ
مکہ سے عسفان کافاصلہ کیا ہے؟ قاضی عیاضؒ ۳۶ میل فرماتے ہیں (مشارق الانوار)، نوویؒ فرماتےہیں کہ مکہ سے عسفان چار برید ہے اورایک برید چار فرسخ کا اورایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے؛ اس لئے عسفان مکہ سے اڑتالیس میل(تقریباً ۱۳۱ کلومیٹر) ہوگا، امام نوویؒ فرماتے ہیںکہ مشہور قول یہی ہے۔مرحلہ کے بیان میں گذرچکاکہ ابن خرداذبہؒ بتیس (۳۲) میل کا فاصلہ قرار دیتے ہیں۔ آج کل مکہ سے جو سڑک مدینہ کو جارہی ہے، وہ وادی عسفان سے ذرا ہٹ کر گذرتی ہے؛ پھر بھی وادی عسفان کے سامنے پہنچ کر دیکھیں تو کار کا میٹر تقریباً۱۰۵ کلومیٹر کا فاصلہ بتلاتا ہے، جس کے تقریباً ۵۷ میل شرعی ہوتے ہیں۔
بندہ کی نگاہ میں ان اختلافات کے پیش نظر یہ معلوم کرنا بہت دشوار ہےکہ حضرت ابن عباسؓ کے زمانہ میں مکہ سے عسفان کا فاصلہ کیا تھا؟ کیونکہ اب جو راستہ مکہ سے مدینہ کے لئے جاتا ہے، پہلے یہ راستہ متعارف نہ تھا، کوئی اورراستہ تھا، جس کی چھان بین کرکے اس راستہ سے موٹر لے کرعسفان جانا تاکہ کیلومیٹر معلوم ہوسکے مستقل ایک کام ہے۔
بہرحال مکہ سے عسفان کا فاصلہ کچھ بھی ہو، حنفیہ کے لئے مضر نہیں؛ کیونکہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے، اس زمانے میں تین دن میں اتنی ہی مسافت طئے ہوتی ہو؛ اس لئے حضرت ابن عباسؓنے یہ فتوی دیا تھا،
واللہ اعلم بالصواب۔
بحری سفر
مولانا رشید احمد لدھیانویؒ نے لکھا ہےکہ بحری سفر میں بحری میل کا اعتبار ہوگا، نیز بحری سفر چونکہ بلاقیام چوبیس گھنٹے دن رات جاری رہتا ہے؛ اس لیے تین دن میں ۷۲گھنٹے کی مسافت کو مسافت سفر قرار دیا جائےگا؛ جس کے ۳۹۶ بحری میل بنتے ہیں؛
چنانچہ مولانالکھتے ہیں:
’’بحری سفر کو بھی بری سفر پر قیاس کرکے اڑتالیس میل قرار دینا صحیح نہیں، مذہب میں اصل اعتبار میلوں کی بجائے تین روز کی مسافت کا ہے۔ بری سفر میں اس کاتخمینہ ۴۸ میل کیا گیا ہے،