کی فقہ ہو یا لغت کی کتابیں، سب جگہ یہی سولہ رطل لکھا ہوا ہے۔ اس پر کچھ تعجب نہیں؛کیونکہ اصحاب لغت؛ ابوعبیدقاسم بن سلامؒ، ازہریؒ، فیروزابادیؒ اورابن منظور افریقیؒ وغیرہ کا مسلک بھی وہی ہے جو ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کا ہے۔ قاری کو حیرت تو اس وقت ہوتی ہے، جب وہ دیکھتا ہےکہ ابن ہمامؒ اورمطرزیؒ جیسے محقق حنفی حضرات نے بھی فرق کو سولہ رطل ہی لکھا ہے۔اب یہ کہنے کے سوا اورکوئی چارہ نہیںکہ حنفیہ نے بھی اصحاب لغت کی تقلید میں فرق کی مقدار سولہ رطل لکھا ہے، وراصحاب لغت نے اپنی تحقیق اوراپنا مسلک لکھا ہے، وہ حنفیہ کا مسلک نہیں ہوسکتا۔
میری اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہےکہ جب حدیث بالا میں ایک فرق کو تین صاع لکھا ہے اورصاع حنفیہ کے نزدیک آٹھ رطل کا ہوتا ہے، تو لامحالہ فرق چوبیس رطل کا ہوگا، سولہ رطل کا نہیں۔ اورجب صاع کے وزن کو تین سے ضرب دیںگے تو مجموعہ وہی ہوگا، جو اوپر لکھا گیاہے۔
ایک بات اوریاد رکھنے کی ہے؛ وہ یہ کہ محیط میں کسی مقام پر فرق کو ساٹھ (۶۰) رطل لکھا ہے، اورامام محمدؒ نے شہد کے عشر کے مسئلہ میں فرق کو ۳۶رطل بتلایا ہے، وہ یا تو ناقلین کا تسامح ہے، یا وہ بھی کسی قسم کا فرق ہے؛ چنانچہ نے علامہ ناصرالدین مطرزیؒ نے بھی اس پر اپنے تحفظ وتردد کا اظہار فرمایا ہے۔ ( دیکھیے:المغرب: مادہ فرق)
القَفِیز
قفیز عراقی (۱۲ صاع): ۳۷ کلو، ۷۹۱ گرام، ۳۶۰ ملی گرام
قفیز ہاشمی قدیم (۴؍صاع): ۱۲؍ کلو، ۵۹۷ گرام، ۱۲۰ ملی گرام
قفیز ہاشمی جدید (۱؍صاع): ۳ کلو، ۱۴۹ گرام، ۲۸۰ ملی گرام
قفیز دراصل تین قسم کے ہوتے تھے: قفیز عراقی، قفیز ہاشمی قدیم اورقفیز ہاشمی جدید۔
قفیز عراقی بارہ صاع کا ہوتا تھا؛ بحر میں ہے:
قال الأزهري رحمه الله تعالى : الكرستون قفيزا، والقفيز ثمانية مكاكيك، والمكوك صاع ونصف (البحر الرائق: باب السلم)
’’ازہریؒ فرماتے ہیںکہ کر ساٹھ قفیز کا ، قفیز أٹھ مکوک کا، اورمکوک دیڑھ صاع کا ہوتا ہے‘‘۔