الطَسُّوج
علامہ سجاوندیؒ نے لکھا ہے:
والدانق اربع طسوجات، والطسوج حبتان، والحبۃ شعیرتان
(فتح القدیر:۲؍۲۱۸ باب زکوۃ المال)
’’دانق چار طسوج کا اورطسوج دوحبہ کا اورحبہ دو جو کا ہوتا ہے‘‘۔
دانق اورحبہ کا جو وزن گذشتہ صفحات میں لکھا گیا ہے اس کے پیش نظر سجاوندیؒ کا یہ کلام بہت قابل اشکال ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہےکہ طسوج سجاوندیؒ کے کلام میں آیا ہے اورسجاوندیؒ نے ہی طسوج کی وزن دانق اور حبہ بتلایا ہے اورحبہ کو دو جو کا مانا ہے اورہم لوگ متعارف دانق اورجو کے دانے سے اس کی تشریح کررہے ہیں؛ اس لئے اشکال واقع ہورہا ہے، اگر ہم ہو بہو ان کا حساب تسلیم کرلیں اوراس کو ان کے زمانے کی اصطلاح قرار دیں؛ جیساکہ علامہ ابن ہمامؒ نے لکھا ہے، تو کوئی اشکال نہیں ہوگا۔
القِنْطار
قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہےکہ عورتوں کو اگر مہر میں قنطار بھی دیدیا ہو تو اسے واپس نہ لیناچاہیے (وإنْ آتَیْتُمْ إحْدَاہُنَّ قِنْطاراً فَلاتَأخُذُوا مِنْہُنَّ شَیْئًا)۔ اسی طرح بعض اہل کتاب کا وصف بیان کیا گیا ہےکہ اگر ان کو قنطار بھی بطور امانت دیدیا جائے تب بھی ان کا ایمان ڈنواڈول نہ ہوگا
(وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ)۔
اسی طرح فضائل کی حدیث میں بھی قنطار کا لفظ آیا ہے۔اب مفسرین کا اختلاف ہوا ہے
کہ قنطار کی مقدار کیا ہے؛ ابوعبیدؒ کہتے ہیں کہ اہل عرب میں اس کا وزن نامعلوم ہے، ثعلبؒ کہتے ہیں
کہ اکثر اہل عرب اس کو چار ہزار دینار مانتے ہیں، مسند احمدؒ کی ایک روایت میں قنطار کو بارہ ہزار اوقیہ بتلایا گیا ہے۔ حقیقیت یہ ہےکہ قرآن کریم میں قنطار سے مال کثیر مراد ہے، کوئی خاص مقدار مراد نہیں،
اس لئے اس کا وزن معلوم کرنے کی حاجت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔