اس اصول کا تقاضہ یہ ہےکہ رطل، مد اورصاع کو خواہ درہم سے تولیں یا دینارسے دونوں ہی صورتوں میں مجوعہ یکساں ہونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوگیاکہ مد، رطل یا استارکا وزن بیان کرتے ہوے جس نے بھی درہم ودینار کے حساب میں تفاوت لکھا ہے، پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہےکہ وہ اس کا تسامح ہے۔
نوٹ: واضح رہے کہ صاحب ہدایہ اور ابن ہمام وغیرہ نے باب الربا میں لکھا ہےکہ رطل کا تعلق اوزان سے ہے، پیمانوں سے نہیں (فتح القدیر: ۷؍۱۷) اس لئے راقم نے رطل کو اوزان کی فہرست میںشامل کیا ہے۔
نوٹ: حضرت ابراہیم حربیؒ کے بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ رطل کا اطلاق چار سو اسی درہم کے مجموعہ پر بھی ہوتا ہے (مغرب: مادہ رطل) مگر شرعی حسابوں میں یہ رطل مراد نہیں۔
ائمہ ثلاثہ کا رطل
تفصیل بالا سے معلوم ہوچکا ہےکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک بھی رطل نوے مثقال کا ہی ہے؛ لیکن چونکہ ان کا دینار چھوٹا ہے؛ اس لئے رطل بھی چھوٹا ہوگا؛ یعنی صرف: دوسو تراسی گرام، چارسو پینتیس ملی گرام، دوسو میکروگرام کا (۲۸۳ گرام، ۴۳۵ ملی گرام، ۲۰۰ میکرو گرام)۔
المَنُّ (عربی)
من (دو رطل): سات سو ستاسی گرام، تین سو بیس ملی گرام (۷۸۷ گرام، ۳۲۰ ملی گرام) من: سڑسٹھ تولہ، چھ ماشہ (۶۷ تولہ، ۶ ماشہ)۔
من بھی عربی اوزان میں سے ہے؛ یہ رطل کا دوگنا ہوتا ہے؛ چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
والرطل نصف من ، والمن بالدراهم مائتان وستون درهما (ردالمحتار۲: ۳۶۵)
’’رطل من کا نصف ہوتا ہے، اورمن درہم سے دوسو ساٹھ درہم کا ہوتا ہے‘‘
اس عبارت سے بس اتنا بتانا مقصود ہےکہ رطل نصف من کا ہوتا ہے؛ یعنی من دورطل کے برابر ہوتا ہے،اسمیں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن شامیؒ کی عبارت میں یہ بات قابل لحاظ ہےکہ ۱۳۰ درہم رطل کا اور ۲۶۰ درہم من کا تقریبی وزن ہے، رطل کے بیان میں معلوم ہوچکاکہ رطل کا تحقیقی وزن ۱۲۸، ۷؍۴ ہے،