نجاست غلیظہ کتنی معاف ہے
نماز کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی ہےکہ کپڑا اوربدن نجاست سے پاک ہوں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی طئے ہےکہ قلیل نجاست معاف ہے، البتہ کثیر نجاست مانع صلاۃ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہےکہ نجاست کی دوقسمیں ہیں: غلیظہ اورخفیفہ۔ نجاست غلیظہ اگر ایک مثقال سے کم ہو، تو اس کو دھونا مستحب ہے اوراس کو دھوئے بغیر نمام پڑھ لینا مکروہ تنزیہی ہے، اگر ایک مثقال کے بقدر ہو تو دھونے کی اوربھی زیادہ تاکید ہے، مگر دھوئے بغیر بھی نماز ہوجائے گی، اوراگر ایک مثقال سے زائد ہے تو اس کو پاک کرنا شرط ہے، پاک کیے بغیر نماز نہیں ہوگی؛ چنانچہ علامہ ابن امیرحاج حلبیؒ نے حلبۃ المجلی شرح منیہ المصلی (۱؍۴۹۲)میں لکھا ہے:
والأقرب أن غسل الدرہم ومادونہ مستحب مع العلم بہ، والقدرۃ علی غسلہ، فترکہ حینئذ خلاف الأولی، نعم الدرہم غسلہ آکد ممادونہ؛ فترکہ أشد کراہۃ
(ردالمحتار: ۱: ۵۲۰)
’’اقرب الی الدلیل یہ ہےکہ ایک درہم اوراس سے کم نجاست غلیظہ کو دھونا مستحب ہے؛ اگرنجاست کا علم ہو اوراس کو پاک کرنے پر قدرت ہو، لہذا (بحالت نماز)نجاست کو باقی رکھنا خلاف اولی ہوگا، ہاں! ایک درہم کے بقدر ہو تو اس کو دھونا زیادہ مؤکد ہے؛ لہذا قدرِ درہم کو نہ دھونا زیادہ مکروہ ہوگا‘‘۔
ینابیع میں قدر درہم کے دھونےکو واجب کہا ہے،اورنہ دھونے کو مکروہ تحریمی کہا ہے، لیکن علامہ شامیؒ نے فتح القدیر، نہایہ ، محیط اورعام متون سے حلبیؒ ہی کی بات کو راجح قرار دیا ہے ؛ اسی لیے احسن الفتاوی میں اسی پر فتوی نقل کیا ہے۔ لیکن علامہ ظفر احمد عثمانیؒ نے اعلاء السنن میں لکھا ہےکہ میرے نزدیک اقرب الی الدلیل وہی قول ہے جو ینابیع میں ہے، اگرچہ شامیؒ نے اس کے برخلاف کو راجح کہا ہے۔ ہمارے اساتذہ کرام اوراصحاب درس کا رجحان اعلاء السنن کی تحقیق ہی کی طرف ہے۔
ایک بات اوریاد رکھنے کی ہے؛ اکثر کتابوں میں اس مقام پر درہم ہی کا لفظ آیا ہے، مگر اس سے وہ درہم مراد نہیں، جو دینار سے چھوٹا ہوتا ہے، بلکہ دینار کا ہم وزن درہم مراد ہے، جس کو درہم مثقالی اوردرہم کبیر بھی کہتے ہیں؛ درہم کی یہ تفسیر خود امام محمدؒ سے منقول ہے؛ شامیؒ لکھتے ہیں: