المَرْحَلَۃ
ایک دن میں آدمی یا سواری کا اونٹ متوسط رفتار سے جتنا چل سکتا ہے، اس مسافت کو مرحلہ کہتے ہیں۔ اوردن بھر چلنے سے یہ مراد نہیں کہ چوبیس گھنٹے چلتا رہے، بلکہ صبح سے زوال تک چلنا مراد ہے؛
علامہ حصکفیؒ درمختار باب صلاۃ المسافر میں لکھتے ہیں:
ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل، بل إلى الزوال(درمع الرد:۲؍۶۰۱)
’’ہردن رات تک چلنا ضروری نہیں، بلکہ زوال تک چلنا کافی ہے‘‘۔
مرحلہ کسی خاص مسافت کا نام نہیں، بلکہ ہرعلاقے اور ہرزمانے میں اس میں تفاوت ناگزیر ہے؛
کیونکہ میدانی علاقوں میں ایک دن میں جتنی مسافت طئے کی جاسکے گی،
پہاڑی علاقوں میں متوسط رفتار سے اتنا چلنا ممکن نہ ہوگا؛ اسی طرح اسلاف ایک دن میں جتنی مسافت طئے کرلیتے تھے، ہمارے لئے اتنا چلنا ممکن نہیں؛
اسی لئےصحیح بات یہ ہےکہ مرحلہ کی نہ کوئی مقدار متعین کی جاسکتی ہے، نہ کی گئی ہے۔
بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا تھاکہ جگہ پڑاؤ کے لائق نہ ہو، تو اورآگے جاکر پڑاؤ کرتے تھے،
اس وجہ سے بھی مرحلہ کی مقدار میں فرق ہوتا رہتا ہے؛ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہےکہ مکہ سے مدینہ دس مرحلہ پر ہے، اورمسافر تیرہ دن میں اس کو طئے کرتے تھے؛
چنانچہ مشہور مؤرخ اورجغرافیہ دان محمد بن اسحاق یعقوبیؒ کتاب البلدان (۱؍۳۴) میں لکھتے ہیں:
’’مدینہ سے مکہ تک دس مرحلے ہیں: پہلا ذوالحلیفہ، یہ مدینہ سے چار میل پر ہے،
دوسراحفیرہ، تیسرا ملل، چوتھا سیالہ پانچواں روحاء، چھٹا رویثہ، ساتواں عرج، آٹھواں سقیا، نواں ابواء، دسواں جحفہ، گیارہواں عسفان، بارہواں مرالظہران، تیرہواں مکہ‘‘۔
ان مرحل کی درمیانی مسافت کیا تھی ؟ اوران میں کتنا تفاوت تھا؟
مشہور جغرافیہ دان ابن خرداذبہؒ فرماتے ہیں :
’’مکہ سے مدینہ کا راستہ: مدینہ سے شجرہ (ذولحلیفہ) یہ پڑاؤ تو نہیں، لیکن یہیں سے احرام باندھا جاتا ہے،