اسی طرح ایک رطل کا تحقیقی وزن چونکہ نوے مثقال (دینار) ہوتا ہے، لہذا نوے کو آٹھ سے ضرب دیں گے، تو ایک صاع: سات سو بیس (۷۲۰)مثقال کا ہوگا، اور۷۲۰ کومثقال کے گرام اورتولہ سے ضرب دیں گے، تو بھی مجموعہ وہی ہوگا جو اوپر لکھا گیا ہے۔
اسی طرح رطل کا تحقیقی وزن چونکہ ۱۲۸ درہم اورچار بٹہ سات درہم ہے، پس اس کو آٹھ سے ضرب دیں گے، تو صاع کا تحقیقی وزن (۱۰۲۸ ) ایک ہزار اٹھائیس درہم اورایک بٹہ سات درہم آتا ہے، اس کو درہم کے گرام اورتولہ سے ضرب دیں گے، تب بھی وہی حساب آئےگا، سرمو فرق نہیں ہوگا۔
علامہ شامیؒ اور کئی حضرات نے اس تحقیقی وزن کے بجائے صاع کو( ۱۰۴۰) درہم لکھا ہے، جو اس پر مبنی ہےکہ رطل ۱۳۰ درہم کا ہوتا ہے، اوررطل کے بیان میں معلوم ہوچکا ہےکہ ۱۳۰ درہم رطل کا تحقیقی وزن نہیں؛ لہذا جن حضرات نے ۱۰۴۰ کو تولہ یا گرام میں بدلا ہے، ان کا وزن تحقیقی نہیں ہوگا۔ اس نکتہ کے ذہن نشین نہ ہونے کی وجہ سے رسالہ’’ اوزان شرعیہ‘‘ میںدینار سے صاع کا حساب لگایا ہے تو ۲۷۰ تولہ ہوا ہے اوردرہم سے صاع کا حساب کیا ہے تو ۲۷۳ تولہ ہوکر حساب میں تین تولہ کا فرق پڑگیا ہے۔
اس سے بھی عجیب بات یہ ہےکہ اصل رسالہ میں درہم کا حساب سے صاع تین تولہ بڑا ہے، لیکن آخری نقشہ میں برعکس دینار کے حساب سے صاع کوتین تولہ بڑا دکھایا گیا ہے، ظاہر ہےکہ یہ تسامح ہے۔ اورچونکہ مولانا مہربان علیؒ نے بھی آخری نقشہ ہی کو گرام میں تبدیل کیا ہے، لہذا یہ تسامح ان کے حساب میں بھی ہےکہ دینار سے صاع کا وزن بڑا ہوگیا ہے، اوردرہم سے چھوٹا؛ حالاںکہ حساب درہم سے ہو یا دینار سے نتیجہ ایک ہی آناچاہیے، جس کی وجہ رطل کے بیان میں تفصیل سے لکھی جاچکی ہے۔
ائمہ ثلاثہ کا اختلاف
یہاں ایک بات اوربھی سمجھ لینے کی ہے؛ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ایک صاع: چار مد کا ہوتا ضرور ہے، مگر چار مد آٹھ رطل کا نہیں ہوتا؛ بلکہ پانچ رطل، پھر ایک تہائی رطل کا ہوتا ہے۔ امام ابو یوسفؒ سے بھی یہی نقل کیا جاتا ہےکہ انہوں نے ائمہ ثلاثہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا؛ مگر علامہ فخرالدین زیلعیؒ نے اس نسبت کا انکار کیا ہےاورلکھا ہےکہ رجوع کا قصہ ہی بے سروپا ہے؛ کیوں کہ اس واقعہ کے کئی ایک مجہول ہیں، دوسرے اگر امام ابویوسفؒ نے اپنے قول سے رجوع کیا ہوتا تو امام محمد اس کو ضرور نقل کرتے؛