والميل : أربعة آلاف خطوة ، والخطوة ثلاثة أقدام . والقدمان : ذراع ، والذراع : أربعة وعشرون أصبعا معترضات (باب شروط القصر)
’’میل چار ہزار خطوہ ، خطوہ تین قدم، دوقدم ایک ذراع اورذراع چوبیس انگل کا ہوتا ہے، جو چوڑائی میں ہوں‘‘۔
یہی بات بجیرمی نے اوربھی تفصیل سے لکھی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
قوله : ( الخطوة ثلاثة أقدام ) والقدم نصف ذراع ، فالخطوة ذراع ونصف، والذراع أربع وعشرون أصبعا معترضات، فهو أي الميل اثنا عشر ألف قدم، قوله: ( والقدمان ذراع ) فهو ستة آلاف ذراع
(حاشیۃ البجیرمی علی الخطیب، فصل فی صلاۃ المسافر )
’’خطوہ تین قدم، اورقدم نصف ذراع ہوتا ہے؛ پس خطوہ ڈیڑہ ذراع ہوگا۔اورذراع چوبیس انگل کا ہوتا ہے، جو چوڑائی میں ہوں؛ لہذا میل بارہ ہزار قدم ہوگا۔ اورقدم دوذراع ہوتا ہے؛ لہذا میل چھ ہزار ذراع ہوگا‘‘۔
حنابلہ کے یہاں بھی صحیح قو ل کے مطابق میل چھ ہزار ذراع کا ہی ہوتا ہے۔
(دیکھئے: الفروع، تصحیح الفروع، باب التیمم)
اب رہا قول ثانی کہ میل تین ہزارذراع ہوتا ہے؛ تو اس کی بابت مولانا عبدالحئیؒ لکھنوی نے اپنے فتاوی (ص:۵۴۴، مسائل متفرقہ) میں اورمفتی محمدشفیع صاحبؒ نے جواہر الفقہ میں یہ وضاحت کی ہےکہ متقدمین کے یہاں ایک ذراع ایسا بھی تھا، جوبتیس (۳۲) انگشت کا تھا، اس قول میں وہی ذراع مراد لیا گیا ہے، اب ظاہر ہےکہ بتیس انگل کے ذراع سے تین ہزار ذراع کی جو مسافت ہوتی ہے، چوبیس انگل کے ذراع سے چارہزار ذراع کی بھی وہی مسافت ہوتی ہے؛
چنانچہ چارہزار کو چوبیس سے ضرب دیں یا تین ہزار کو بتیس سے مجموعہ: چھیانوے ہزار ہی ہوتا ہے۔
میل مالکی
مالکیہ کے نزدیک میل ساڑھے تین ہزار ذراع کا ہوتا ہے، لیکن ذراع ان کے یہاں چھتیس(۳۶) انگل کا ہوتا ہے؛ جیساکہ شرح کبیر للدردیر اورفواکہ دوانی وغیرہ میں مذکور ہے۔