’’حضرت ابوجعفرؒ (محمد بن علی )فرماتے ہیںکہ حضرت جابرؓ کے پاس ہم میں بحث ہوئی تو حضرت جابرؓ نے فرمایا: غسل جنابت کے لیے ایک صاع پانی کافی ہے، ہم نے عرض کیاکہ ایک صاع تو کیا دوصاع بھی کافی نہیں ہوسکتا؛ حضرت جابرؓ نے فرمایا: اس ذات کو ایک صاع کافی ہوجاتا تھاجو تم سے افضل تھی اوربال بھی ان کے زیادہ تھے‘‘۔
اس لئے عام حالات میں اسی مقدار پر اکتفاء کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اورایسا جب ہوگا کہ نل کے بجائے لوٹے سے وضو کیا جائے، یا نل کو بار بار کھول بند کیا جائے، مسلسل کھول کرنہ رکھا جائے۔ آج کل درمیان وضو نل مسلسل کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔
تیمم سے قبل کتنی دور تک پانی تلاش کرنا واجب ہے
باب تیمم میں یہ مسئلہ مذکور ہےکہ مسافرایک میل پانی سے دور ہو تو اس کے لیے تیمم درست ہے؛ لیکن اگر غالب گمان ہوکہ پانی قریب ہی کہیں موجود ہے، تو ایک غلوۃ تک پانی تلاش کرنا لازم ہے؛اس لیے اسے چاہیےکہ ایک غلوۃ خود جائے یا کسی معتبر کو بھیجے، یا اونچےٹیلے پر چڑھ کر دیکھ لےکہ پانی ہے یا نہیں۔
اب ایک اختلاف یہ ہےکہ چاروں اطراف کا مجموعہ ایک غلوۃ ہونا چاہئے یاچاروں طرف ایک ایک غلوۃ تلاش ضروری ہے ؟ صاحب نہر نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، علامہ شامیؒ نے بھی اسی کو اقرب کہا ہے: والاقرب الاول کما مر عن النھر (ردالمحتار: ۱؍۴۱۵)۔
اورغلوۃ کے بیان میں ہندیہ کے حوالہ سے گذرچکاکہ راجح قول کے مطابق چارسو ذراع کا ایک غلوۃ ہوتا ہے؛ لہذا ہرچہار جانب سو سو ذراع تک پانی تلاش کرنا ہوگا۔
اورسو ذراع کرباس کی مقدار ہے: پینتالیس میٹر، سات سو بیس ملی میٹر۔
تیمم کب جائز ہے
اگر کسی کو یہ غلبہ ظن ہے کہ پانی ایک میل دور ہے تو اس کے لئے تیمم کرلینادرست ہے، صاحب ہدایہ نے اسی کومسلک مختار کہا ہے، بدائع میں اس کو اقرب الاقوال لکھا ہے، شامیؒ نے اسی کی تائید کی ہے؛ اس لئے فتوی بھی اسی پر ہے (دیکھئے: ردالمحتار: ۱؍۳۹۶)۔ میل کی مقدار ہے: ۱ کلو میٹر، ۸۲۸، میٹر، ۸۰۰ ملی میٹر ۔