اس عبارت میںقفیز عراقی کو بیان کیا گیا ہے؛ جس کا حاصل یہ ہےکہ قفیز عراقی، مکوک عراقی سے آٹھ مکوک اورصاع سے بارہ صاع کا ہوتا تھا؛ پس جب مکوک عراقی کے وزن کو آٹھ سے یا صاع کے وزن کو بارہ سے ضرب دیں گے، تو مجموعہ وہی ہوگا جواوپر لکھا گیاہے۔
قفیز ہاشمی قدیم : قفیز کی ایک قسم: قفیز ہاشمی ہے، وہ قدیم زمانے میں چار صاع کا ہوتا تھا، صاع کے بیان میں ہم امام ابویوسفؒ کے حوالے سے لکھ آئے ہیں کہ:
والمختوم الھاشمی الاوّل إثنان وثلاثون رطلا
’’مختوم ہاشمی قدیم ۳۲ رطل (چار صاع) کا ہوتا تھا‘‘۔
پھر حضور ﷺ کے زمانے میں جو قفیز شرعی طور پر متعارف ہوا وہ صرف ایک صاع کا تھا، اسی کو حضرت عمرؓ نے رائج کیا اورحجاج نے بھی کافی تفتیش وتلاش کے بعد اپنے زمانے میں اسے ہی شرکاری طور پر نافذ کیا؛ اس لیے اس قفیز کو قفیز عمری، قفیز حجاجی اورصاع حجاجی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ دراصل قفیز نبوی اورصاع نبوی ہے؛ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
إن القفیز الہاشمی صاع واحد، وھو القفیز الذی ورد عن عمربن الخطاب، ۔۔۔ وہو صاع رسول اللہ ﷺ وینسب إلی الحجاج؛ فیقال صاع حجاجی؛ لأن الحجاج أخرجہ بعد مافقد (ردالمحتار: ۶: ۳۰۴)
’’قفیز ہاشمی ایک صاع ہوتا ہے، اوریہ وہی قفیز ہے جو حضرت عمرؓ سے منقول ہے، یہی صاع نبوی بھی ہے جو حجاج کی طرف منسوب ہوکر صاع حجاجی کہلاتا ہے؛ کیونکہ مفقود ہوجانے کے بعد حجاج ہی نے اسے اجاگر کیا تھا‘‘۔
اس قفیز عمری کو ’’ربع ہاشمی‘‘ بھی کہا جاتا ہے؛ کیوںکہ یہ قفیز ہاشمی قدیم کا چوتھائی ہوتا ہے۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ قفیز ہاشمی دو طرح کا تھا، ایک قدیم دوسرا جدید، تو یہیں سے ہدایہ اورفتح القدیر کی عبارتوں کا تعارض بھی حل ہوجاتا ہے؛ صاحب ھدایہ لکھتےہیں:
قفیز ھاشمی، وھو الصاع
’’قفیز ہاشمی جو ایک صاع کا ہوتا ہے‘‘۔