وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
کی رو سے باپ کے ساتھ جدّہ کو میراث نہیں ملے گی ، جیسا کہ جمہور کا یہی مسلک ہے ۔پہلے قول کی دلیل : ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک موقع پر میت کے باپ کے ہوتے ہوئے اُس کی دادی کو سدس دیاتھا ،چنانچہ روایت میں ہے: حضرت عبد اللہ بن مسعودنےایک جدّہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا:”إِنَّهَا أَوَّلُ جَدَّةٍ أَطْعَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُدُسًا مَعَ ابْنِهَا وَابْنُهَا حَيٌّ“ یہ وہ پہلی جدّہ ہے جس کو نبی کریمﷺنے اپنے بیٹے کے ساتھ سدس دیا تھا ،حالآنکہ اُس کا بیٹا زندہ تھا۔(ترمذی: 2102) اِس سے معلوم ہوا کہ باپ کی وجہ سے دادی میراث سے محروم نہیں ہوتی ۔جمہور کی جانب سے حدیث کے جوابات : حدیث مذکور جمہور کے مسلک کے خلاف ہے ، جمہور نے اِس کی کئی توجیہات ذکر کی ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں: (1)ہوسکتا ہے کہ میت کا باپ غلام یا کافر ہو اِس لئے وہ دادی کے لئے حاجب نہیں بنا کیونکہ کافر ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی محروم ہوتا ہے اور دوسروں کیلئے حاجب بھی نہیں ہوسکتا ۔(الشریفیہ :34) (2) یہ بھی کہا جاسکتا ہےکہ حدیث میں جدّہ کے بیٹے سے مراد میت کا باپ نہیں ، بلکہ ماموں مراد ہے اور جدّہ سے مراد نانی ہے ۔اور ظاہر ہے کہ ماموں اپنی ماں کے لئے حاجب نہیں بنتا ۔(الکوکب الدری :3/103) (3)حدیث میں ذکر کردہ حکم منسوخ ہے ، یعنی یہ واقعہ ابتداءِ اسلام کا ہے کہ جدّہ کو