وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
تک کہ دو شخص وراثت کے کسی مسئلہ میں جھگڑیں گے اور اُنہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اُن کے درمیان (اُس مسئلہ میں)فیصلہ کرسکے۔(سنن الدارمی:227) نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ سے ارشا د فرمایا: ”يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهُ فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَإِنَّهُ يُنْسَى وَهُوَ أَوَّلُ مَا يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي “اے ابوہریرہ ! علم الفرائض سیکھو اور اُسے لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ یہ نصفِ علم ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ بھلادیا جائے گا اور میری امّت میں سب سے پہلے جو علم بھلایا جائے گا وہ علم الفرائض ہی ہے۔(مستدرکِ حاکم: 7948) حضرت سعید بن مسیّبفرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرنے حضرت ابوموسیٰ اَشعریکو بذریعہ خط نصیحت کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :”إِذَا لَهَوْتُمْ فَالْهَوْا بِالرِّمْيِ، وَإِذَا تَحَدَّثْتُمْ فَتَحَدَّثُوا بِالْفَرَائِضِ “جب تم کھیلوتو تیر اندازی سے کھیلا کرو اور جب بات کرو تو علم الفرائض کی بات کیا کرو۔(مستدرکِ حاکم: 7952) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: ”الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ فَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ “علم تو تین ہی ہیں ، اس کے علاوہ باقی سب فضل یعنی اضافہ ہیں : ایک آیتِ مُحکمہ (جو ناقابلِ منسوخ ہو اُس آیت )کا علم ، دوسرا سنتِ رسول اللہ ﷺکا علم اور تیسرا فریضہ عادلہ یعنی علم الفرائض کا علم ۔(مستدرکِ حاکم: 7949)