وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
(اس کے نتیجے میں)اُن کیلئے جہنم کی آگ لازم ہوجاتی ہے۔(ترمذی: 2117) حضرت سعد بن وقاصکی ایک روایت میں ہے،نبی کریم ﷺنے اِرشاد فرمایا:”إِنَّكَ إِنْ تَذَرْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ“ بیشک تم اپنے ورثاء کو غنی(یعنی مالدار) ہونے کی حالت میں چھوڑو، یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم اُنہیں اِس حالت میں چھوڑو کہ وہ محتاج و مُفلس ہوکر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔(ترمذی: 2116) نبی کریمﷺ کے عہد میں کسی شخص کا انتقال ہوگیا ، اُس نےترکہ میں صرف چھ غلام چھوڑے تھے ، جنہیں اُس نے مرنے سے پہلے مرض الوفات میں آزاد کردیا(یعنی ورثاء کے لئے کچھ نہ چھوڑا ) اُس کے ورثاء نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوریہ معاملہ ذکر کیا ، آپﷺنے ارشاد فرمایا:”لَوْ عَلِمْنَا,مَا صَلَّيْنَا عَلَيْهِ“ اگر ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو ہم اُس کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھتے۔(سنن بیہقی :21398) ایک روایت میں ہےآپﷺنے اِرشادفرمایا:”لَوْ شَهِدْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُدْفَنَ لَمْ يُدْفَنْ فِي مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ“ اگر میں اُس کے دفن ہونے سے پہلے حاضر ہوجاتا تو وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جاتا ۔(ابوداؤد: 3960) پھر آپ ﷺنے اُن چھ غلاموں کو بلوایا اور اُن کے درمیان قرعہ اندازی کی اور پھر دو کو آزاد کردیا (کیونکہ چھ میں دو غلام تہائی مال ہیں)اور بقیہ چار کو غلامی کی حالت میں