معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
٭… قرآن کریم میں قارون کے بارے میں یہ تذکرہ ہے کہ اللہ نے اسے بے انتہاء مال ودولت اوربے حدوحساب خزانوں اورہرقسم کی نعمتوں سے نوازا۔لیکن جب اسے اس بات کی تلقین کی گئی کہ وہ ان نعمتوں اورمال ودولت کی فراوانی وبہتات پرفخروغرورکی بجائے اپنے محسن ومنعم کی اطاعت وفرمانبرداری کی راہ اپنائے،ا پنی آخرت سنوارنے کی کچھ فکرکرے اوراللہ کے دئیے ہوئے اس مال ودولت اوران خزانوں میں سے کچھ حصہ بندگانِ خداکی مدد ٗ انسانیت کی فلاح وبہبوداورخدمتِ خلق کی راہ میںخرچ کرے … تووہ فوراً ہی مشتعل اورآگ بگولہ ہوگیا،اللہ کی نعمتوں کایکسرانکارکرتے ہوئے ٗ نیزحددرجہ ناشکری ٗبے مروتی اوربے حسی وسنگدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے یوںہرزہ سرائی شروع کردی : {… اِنّمَا أُوتِیتُہٗ عَلَیٰ عِلْمٍ عِندِي} (۱) یعنی : ’’… یہ سب کچھ تومیں نے خوداپنے ہی علم اورذاتی دانش وحکمت سے کمایاہے) ٭… اسی طرح قرآن کریم میں فرعون کے بارے میں یہ تذکرہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے اللہ کی طرف سے جب یہ حکم سنایاکہ وہ اللہ کی زمین میں فتنہ وفسادپھیلانے سے بازآجائے، ظلم وستم ٗکشت وخون اورمردم آزاری کایہ سلسلہ اب بندکردے… تووہ اس حکمِ خداوندی اورفرمانِ الٰہی کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کی بجائے نافرمانی وروگردانی پر اَڑگیا،اور فوراً ہی اپنی بے حسی وبدبختی اورحددرجہ سرکشی وطغیانی کاثبوت پیش کرتے ہوئے خود اپنی ہی خدائی کادعویٰ کربیٹھا،اوریوں گویاہوا:{… أَنا رَبُّکُمُ الأَعلَیٰ} (۲) یعنی: (تم سب کابڑااورحقیقی رب تومیں خودہی ہوں…) ۔ گذشتہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شکرگذاری و ------------------------------ (۱) القصص[۷۸] (۲) النازعات[۲۴]