معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
اسی پرتوکل کرے،اوراپناہرمعاملہ بس اسی کے حوالے کردے،جس قدراسے دنیازیادہ ستائے ٗیاکسی بھی معاملے میں اس کی پریشانیوں میں جس قدراضافہ ہو ٗاسی قدراللہ کے ساتھ اس کی دوستی بڑھتی جائے اوراس کے ساتھ تعلق مضبوط و مستحکم ہوتاچلاجائے… اوروہ ہمیشہ اس آیت کے معنیٰ ومفہوم میں غوروفکرکرتارہے: {وَ أُفَوِّضُ أَمرِي اِلَیٰ اللّہِ اِنَّ اللّہَ بَصِیرٌ بِالعِبَادِ} (۱) ترجمہ:(میں تواپنامعاملہ بس اللہ ہی کے حوالے کرتاہوں ،بے شک وہ اپنے بندوں کوخوب دیکھنے والاہے) نیز:{اِنَّمَا أَشکُوا بَثِّي وَحُزنِي اِلَیٰ اللّہِ} (۲) ترجمہ:(میں تواپنی پریشانیوں اوررنج والم کی فریادصرف اللہ ہی سے کرتاہوں) قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺکوخطاب کرتے ہوئے یہ ارشادہے:{وَلَقَدْ نَعلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ فَسَبِّح بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُن مِّنَ السَّاجِدِینَ وَاعبُد رَبَّکَ حَتّیٰ یَأتِیَکَ الیَقِینُ} (۳) ترجمہ:(ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کادل تنگ ہوتاہے،آپ اپنے رب کی تسبیح اورحمد بیان کرتے رہیں،اورسجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں،اوراپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کوموت آجائے) اس آیت کابھی یہی مفہوم ہے کہ انسان اپنے مخالفین کی طرف سے بدسلوکی ٗیااورکسی بھی وجہ سے جب کسی پریشانی سے دوچارہوجائے توایسے میں ضرورت سے زیادہ رنجیدہ وافسردہ ہونے کی بجائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ سے تسبیح وتحمیدکااہتمام کیاجائے اوراس کے ساتھ اپناتعلق مضبوط ومستحکم کرنے کی خوب فکراورجستجوکی جائے۔ ------------------------------ (۱)غافر؍مؤمن[۴۴] (۲) یوسف[۸۶] (۳)الحجر[۹۷۔۹۸۔۹۹]