معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
اسی طرح ارشادِ ربانی ہے:{وَلَاتُصَعِّر خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَاتَمشِ فِي الأرضِ مَرَحاً اِنَّ اللّہَ لَایُحِبُّ کُلَّ مُختَارٍ فَخُورٍ} (۱) ترجمہ:(لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پُھلا(۲)اورزمین پراِتراکرنہ چل،کسی تکبرکرنے والے شیخی خورے کواللہ پسندنہیں فرماتا) نیزارشادہے:{وَاقْصِدْ فِي مَشْیِکَ} (۳) ترجمہ:(اپنی چال میں میانہ روی اختیارکر) یعنی ایسی چال سے گریزکیاکیاجائے جس سے مال ودولت ٗجاہ ومنصب ٗ طاقت وقوت ٗ حسن وجمال ٗیااورکسی بھی وجہ سے دوسروں کے سامنے تکبراورفخروغرورکااظہارہوتاہو۔ نیزاس کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان نہ توبہت تیزچلے ٗاونہ ہی بہت سست رفتاری کامظاہرہ کرے،بلکہ اپنی چال میں اعتدال پیداکرے۔کیونکہ بلاضرورت تیزچلناشرف اوروقارکے منافی ہے،جبکہ مؤمن کوہرمعاملہ میں ایسارویہ اختیارکرناچاہئے جوکہ شرف اوروقارکے تقاضوں کے مطابق ہو۔نیزبہت تیزچلنے میں گرجانے ٗخوداپنے آپ کویاکسی دوسرے کوکوئی چوٹ لگ جانے یاتکلیف پہنچنے کااندیشہ بھی ہے۔اس کے برعکس بہت آہستہ چلنے میں بھی یہ قباحت ہے کہ اس طرح دوسرے راہ گیروںکیلئے راستے میں رکاوٹ پیداہوگی۔نیزبلاوجہ سست رفتاری میں بیماروں اورمعذوروں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، لہٰذاجب اللہ نے صحت وتندرستی جیسی انمول اورگراں قدر نعمت سے نوازاہوتوبلاوجہ بیماروں اورمعذوروں کے ساتھ مشابہت اختیارکرنایقینابہت بڑی ناشکری ہے۔ نیزبہت آہستہ چلنے میں مغروروں اورمتکبروں کے ساتھ مشابہت بھی ہے،کیونکہ اکثرمغرور ------------------------------ (۱) لقمان[۱۸] (۲)یعنی جب کوئی دوسراتم سے ہمکلام ہوتوتکبراورغرورکی وجہ سے اس سے اپنامنہ نہ پھیرو۔ (۳) لقمان[۱۹]