معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
اورکم گوئی یقیناعقلمندی وسمجھداری کی نشانی ہے۔ مثال مشہورہے: اِذا تَمّ عقلُ المَرئِ نَقَصَ کَلَامُہٗ یعنی:’’انسان کی عقل جب پختہ ہوجاتی ہے تواس کی گفتگوکم ہوجاتی ہے‘‘۔ نیزمثال مشہورہے: مَن سَکَتَ سَلِمَ، وَمَن سَلِمَ نَجیٰ یعنی:’’جوشخص خاموش رہا وہی سلامت رہا ٗ اورجوسلامت رہااسی نے نجات پائی‘‘۔ نیز: اِذا کَانَ الکَلَامُ مِن الفِضَّۃِ فَالسُّکُوتُ مِنَ الذَّھَبِ یعنی:’’انسان کی گفتگواگرچاندی کی طرح قیمتی ہے ٗتواس کی خاموشی یقیناسونے کی طرح قیمتی ہے‘‘۔ لہٰذا’’کثرتِ کلام‘‘یعنی فضول اوربلاضرورت گفتگوسے اجتناب ضروری ہے،کیونکہ یہ عادت انسان کیلئے کسی بھی وقت کسی بڑی آفت ومصیبت کاسبب بن سکتی ہے۔جبکہ اس کے برعکس کم گوئی میں انسان کیلئے عافیت وسلامتی کارازپوشیدہ ہے۔کسی کاشعرہے: ایک خاموشی سے ٹلتی ہیں ہزاروں مشکلات جو رہا خاموش ٗ سمجھو مل گئی اس کو نجات جس طرح کمان سے نکلاہواتیرکسی صورت واپس نہیں آسکتا ٗبندوق سے نکلی ہوئی گولی واپس نہیں ہوسکتی ٗبعینہٖ اسی طرح جوبات ایک بارزبان سے نکل گئی وہ کسی صورت واپس نہیں آسکتی۔لہٰذاانسان کیلئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان سے کوئی بھی لفظ اداکرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ لیاکرے،جیساکہ اردومیں محاورہ مشہورہے : ’’پہلے سوچو،پھرتولو،پھربولو‘‘۔نیزکسی دانشمندکاقول ہے کہ:’’اپنی آنکھیں اورکان کھلے رکھو ٗ مگرزبان بندرکھو‘‘۔ شاعرکہتاہے: مَا اِن نَدِمتُ علَیٰ سُکُوتِي مَرَّۃً وَلَقَد نَدِمتُ عَلَیٰ الکَلَامِ مِرَارَا یعنی آج تک کبھی ایسانہیں ہواکہ مجھے اپنی ’’خاموشی‘‘ پرافسوس ہواہو،البتہ زندگی میں ایسے