معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
نیزارشادِنبوی ﷺہے: (لَاتُکثِرُوا الکَلَامَ بِغَیرِذِکرِاللّہِ تَعَالیٰ، فَاِنَّ کَثرَۃَ الکَلَامِ بِغَیرِذکرِاللّہِ تَعَالیٰ قَسْوَۃٌ لِلقَلبِ، وَاِنَّ أبعَدَالنَّاسِ مِن رَحْمَۃِ اللّہِ تَعَالیٰ : القَلبُ القَاسِي) (۱) ترجمہ: (اللہ کے ذکرکے سوادوسری باتیں ضرورت سے زیادہ نہ کیاکرو،کیونکہ اللہ کے ذکرکے سواکثرتِ کلام سے دل سخت ہوجاتاہے،اوراللہ کی رحمت سے سب سے زیادہ دوراورمحروم وہی شخص رہتاہے جس کادل سخت ہو) ۔ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ نے ایک باررسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کیا: مَا النَّجَاۃ؟ یعنی (ہرقسم کی آفتوں اورپریشانیوں سے) سلامتی ونجات حاصل کرنے کیلئے کیا تدبیر اختیارکی جائے؟ آپﷺ نے جواب میں ارشادفرمایا: (أَمسِک عَلَیکَ لِسَانَکَ، وَلیَسَعْکَ بَیتُک، وَابْکِ عَلیٰ خَطِیئَتِک) (۲) ترجمہ:(اپنی زبان کوسنبھال کررکھو،تمہیں تمہاراگھرکافی ہوجائے(۳) اوراپنے گناہوں پررویاکرو) (۴) اسی طرح رسول اللہ ﷺکاارشادہے: (المُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن لسَانہٖ وَیَدِہٖ) (۵) ترجمہ:(مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اورجس کے ہاتھ کے شرسے دوسرے مسلمان سلامت رہیں) بسیارگوئی یعنی زیادہ بولناانسان کی ناپختگی وناسمجھی کی دلیل ہے،جبکہ اس کے برعکس خاموشی ------------------------------ (۱) ترمذی[۲۴۱۱] (۲) ترمذی[۲۴۰۶]باب ماجاء فی حفظ اللسان۔ (۳)یعنی بلاضرورت اپنے گھرسے باہرگلی کوچوں اوربازاروں میں گھومتے رہنے سے پرہیزکیاجائے۔ نیزاس کایہ معنیٰ بھی بیان کیاگیاہے کہ انسان کوچھوٹا بڑاقیمتی یامعمولی جیسابھی گھرنصیب ہووہ اسی پرراضی وقانع رہے اوردوسروں کے گھروں کی طرف نہ دیکھاکرے۔ (۴)یعنی گناہوں سے بچنے کی کوشش کے باوجوداگرفطری انسانی کمزوری کے باعث کبھی کوئی گناہ سرزدہوجائے تواس پر خوش ہونے یااس پراصرارکی بجائے جلدازجلدخلوصِ دل کے ساتھ توبہ واستغفارکااہتمام کیاجائے۔ (۵) بخاری[۱۰]باب من سلم المسلمون من لسانہٖ ویدہٖ۔نیز:مسلم[۴۱]