یہ بڑی ہولناک تاریخی مثال ہے۔‘‘ (مسلمانوںکی فرقہ بندیوں کا افسانہ:۱۱۹)
اس صورتحال کا اورصحیح اندازہ لگانے کے لیے مناسب ہوگا کہ اب سے اسی پچاسی سال پہلے کا ایک منظر پیش کیاجائے جو دہلی کی جامع مسجد میںہر جمعہ کی نماز کے بعد پیش آیا کرتاتھا جو علمائے احناف اور دوسرے مسلک کے علماء کے درمیان لڑائی کی عکاسی کرتاہے وہ یہ دور ہے جبکہ حضرت مولانا خلیل احمدصاحب نوراللہ مرقدہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس دوم تھے۔ مولانا سید عبدالحی صاحب رائے بریلوی نے ۱۳۱۲ھ میں دہلی وسہارنپور کا سفر کیا۔ انہوںنے ایک جمعہ کی نماز جامع مسجد دہلی میںپڑھی اور مختلف مقررین کی تقریریں سنیں وہ اپنا مشاہدہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’نماز کے بعد چار جگہ وعظ ہونے لگا منبر پر مولوی محمد اکبر وعظ کہتے ہیں، یہ بزرگ حنفیوں کا خوب خاکہ اڑاتے دل کھول کر تبرا کرتے ہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہدایہ پڑھانے سے توبہ کی ہے فرماتے تھے کہ آج کون ہے جس نے ہدایہ پڑھانے سے توبہ کرکے کلام مجید کی تعلیم شروع کی ہو؟ سب جہنم میں جائیں گے اور وعظ میں ہر بات پر اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں ہر آیت کو اہل دہلی اور اپنے اوپر اتارتے ہیں اہل دہلی کو ظالمین اور مشرکین سے ملاتے ہیں اور اپنے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عیاذا باﷲ۔۔۔۔ دوسرے صاحب مئذنہ کے پاس بھی اسی طرح پر حنفیہ کاخاکہ اڑارہے تھے لیکن کف لسان کے ساتھ۔۔۔ تیسرے صاحب دوسری جانب مئذنہ کے محدثین ومتبعین سب کی خبر لے رہے تھے۔۔۔ انحناء وقیام تعظیمی کے منع کرنے پر سخت سست کہہ رہے تھے۔۔۔ چوتھے صاحب حوض پر کچھ مناجات اور نعتیہ غزلیں پڑھ کر لوگوں کو اپنی طرف راغب کررہے تھے الغرض ایک ہڑبونگ تھا اس ہڑبونگے پن کو دیکھ کر نہایت افسوس ہوا خدا کی مرضی میں کسی کو دخل نہیں جب سلطنت اسلام جاتی رہی تو جس کا جو جی چاہے کہے اور کرے۔‘‘(دہلی اور اس کے اطراف: ۶۸۔۶۹)
حضرت مولانا انہیں حالات سے گذر ے اور انہیں مناظر کو دیکھا اور کلفت محسوس کی جس نے آپ کے دل میں توازن واعتدال پیدا کردیا اور تکفیر وتفسیق کی گرم بازاری سے نفرت پیدا ہوئی آپ نے فقہ کتاب وسنت کے ذریعہ حاصل کی کلام وفلسفہ کی راہ سے حاصل نہیں کی تھی جس کی وجہ سے آپ میں تخریب وتعصب نہیں آیا وہ امتیازی شان تھی جس نے آپ کو ہر طبقہ کے خیال اور ہرمکتب فکر میں مقبول اور محبوب بنادیا اورسب ہی نے آپ کی طرف رجوع کیا۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
’’آپ کی مجتہدانہ استعداد ووسعت نظر تمامی ہمعصر علماء میں مسلم تھی کہ جن مسائل میں علماء کے اختلاف ہوتے وہ محاکمہ کے لیے آپ کے پاس بھیجے جاتے اور جن معرکۃ الآراء مباحث میں قلم اٹھاتے اہل علم گھبراتے تھے وہ آپ کی خدمت میں لائے جاتے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۲۹۶)
آپ کی وسعت نظر اعتدال وتوازن اور عدم غلو کاحال یہ تھا کہ بعض دفعہ بعض مسائل میں اپنے ہم مسلک علماء اور فقہاء کی رائے سے بھی اختلاف کرتے تھے اورجو خود تحقیق کے بعد صحیح سمجھتے وہ رائے رکھتے تھے حتی کہ بعض مرتبہ اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نوراللہ مرقدہ کی رائے سے بھی اختلاف کیا اور یہ فرمایا کہ معصوم بجز رسول کے کوئی نہیں۔