تھے لیکن آپ تقلید جامد کو پسند نہ فرماتے تھے آپ مجتہدانہ اور محققانہ شان رکھتے تھے آپ نے کسی امام یا محدث پر ایسی تنقید نہیں کی جس سے اس کی شان میں تنقیص کا پہلو نکلتاہو ، ہمشیہ آپ نے ان کا احترام وعقید ت سے نام لیا آپ نے کبھی حنفی مسلک ثابت کرنے میں کتاب وسنت سے انحراف یا جادہ اعتدال سے ہٹنے یا تحزب سے کام نہیں لیا زندگی بھر ہر مسلک حق کا اعتراف کیا اور احترام ومحبت سے اس کا ذکر فرمایا اپنے پسندیدہ مسلک کو کتاب وسنت کی روشنی میں ثابت کیا، حنفی مسلک میں آپ عموما’’شامی‘‘ سے کام لیتے اور اس کو ترجیح دیتے مگر آپ کے اعتدال وتوازن کاحال یہ تھا کہ صاحب ’’شامی‘‘ جب کسی قول کو وہ ذاتی حیثیت پیش کرتے تو آپ اس کو حجت نہ مانتے اور اس قول کی تحقیق وتنقید کرتے اور کہتے ہم رجال ونحن رجال ان کی رائے ہم پر حجت نہیں جب تک اسلاف کے قول سے مؤید نہ ہو۔
حضرت مولانا کے اس طرز فکر اور طرز عمل سے ہم کو اعتدال اور توازن اور عدم تعصب وتخرب کا سبق ملتاہے ورنہ فقہ مسلک کے اختلاف نے حاملین مسلک کو ایک دوسرے کے خلاف ایسا صف آرا کردیا تھا کہ ایک فقہی مسلک کا حامل دوسرے فقہی مسلک رکھنے والے کو اپنا مخالف جانتا تھا اور اس پر سخت تنقید کرتاتھا حتی کہ مخالف مسلک کے امام کو بھی ہدف ملامت بنانے میں کوتاہی سے کام نہیں لیتا تھا اور اس مخالفت اور تنقید وتنقیص کی انتہا تکفیر وتفسیق کے حدود تک پہنچ جاتی تھی اور آج بھی جب کہ ایمان ویقین اور اصول دین اور مبادیات اسلامی کی بھی خیر نہیں ہے اور لوگوں کے ہاتھوں سے ایمان واسلام کا دامن بھی چھوٹتا نظر آرہا ہے بعض ایسے متخرب اور اپنے فقہی مسلک میں انتہا پسند حضرات پائے جاتے ہیں جو دینی جزئیات اور فقہی اختلاف میں اتنے سخت ہیں کہ فریق مخالف کو کسی حال میں معاف نہیں کرتے اور تکفیر وتفسیق کے مظاہرے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔
حسب ذیل سطور پڑھئے جو مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی کے قلم سے نکلی ہیں جن میں ان مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
ہندوستان میں بھی پچھلے دنوں زوال حکومت کے بعد مسلمانوں پر آفات ومصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے ان قصوں میں اور تو جو کچھ ہواسو ہوا ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کی بعض ناگوار صورتیں اس شکل میں جو پیش آئیں کہ مسجدوں میں دنگے ہورہے ہیں جوتے چل رہے ہیں گتھم گتھی ہورہی ہے ایک دوسرے کو معمولی معمولی باتوں پر مسجدوں سے نکالنے پر اصرار کررہاہے بسا اوقات بے غیر مسلمانوں کو اپنے دینی مسائل کے جھگڑوں میں انگریزی حکام کے سامنے فیصلہ طلب کرنے کے لیے حاضر ہوناپڑا۔‘‘
(مسلمانوںکی فرقہ بندیوںکا افسانہ:۱۱۸)
اسلام کی روح اور دین کے مغز سے بیگانہ ہوکر صرف اس پر لڑ رہے تھے کہ گو آہستہ آمین کہنا بھی حدیثوں سے ثابت ہے لیکن زیادہ قوی حدیثوں سے ان کا دعویٰ تھا کہ زور سے آمین کی آواز کہنا بھی حدیثوں سے ثابت ہے لیکن یہی بہتر ہے یا بجائے ناف یا زیر ناف کے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا خیال کرتے تھے کہ زیادہ اچھا ہے رکوع میں جاتے ہوئے یا اس سے اٹھتے ہوئے کوئی دونوں ہاتھوں کو نہ اٹھائے تو وہ بھی کہتے تھے کہ اس کی نماز ہوگئی تاہم اٹھانا ہاتھوں کا کہتے کہ زیادہ ثواب کاکام ہے یہ سب کچھ ماننے کے باوجود ان ہی چند مسئلوں میں جوغل غپاڑے ہوئے ہنگامے مچائے گئے، جگ ہنسائیاں ہوئیں وہ بڑی دردناک داستان ہے فقہی اختلاف کے غلط استعمال کی