نہیں آتے تھے اس کا ان کو رنج تھا اسی ملال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خدمت بابرکت میں خط لکھا آپ نے حسب ذیل جواب دیا:
’’الحمدللہ کہ ذکر بارہ تسبیح آپ کا استقلال کے ساتھ جاری ہے مگر آپ کی حسرت اس پر کہ حالات وواردات سے طبیعت عاری ہے موجب افسوس ہے حق تعالیٰ شانہ کی یہ نعمت کیا کچھ کم ہے کہ اس نے اپنے لطف وکرم سے آپ کو مداومت ذکر بارہ تسبیح کی عطا فرمائی ہے ذکر منشور ولایت ہے جس کو ذکر کی توفیق دی گئی گویا فرمان ولایت اس کو مل گیا حالات وواردات نہ مقصود ہیں اور نہ ہر ایک کو پیش آتے ہیں یہ تو بچوں کا ایک کھیل ہے اور اس کی تمنا فضول ہے لہٰذا آپ اپنی حسن حالت پر حق تعالیٰ شانہ کا نہایت شکر ادا کریں اور اس نعمت عظمیٰ کو حقیر نہ سمجھیں کیونکہ شکر نعمت موجب مزید نعمت ہے اور ناشکری موجب سلب نعمت ہے ،حق تعالیٰ شانہ ناشکری سے بچاویں۔‘‘
آپ سے بیعت کاتعلق رکھنے والے ایک صاحب باوجود ذکر وشغل اور عبادت وریاضت کے اپنے گھر والوں کے حقوق ادا نہیں کرپاتے تھے ان کو حضرت مولانا نے ہدایت فرمائی:
’’تم کو چاہئے کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اخلاق کا معاملہ کیا کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی۔
فقط والسلام
ایک دوسرے صاحب جن کا تعلق حضرت مولانا سے تھا اور آپ سے اصلاح لیتے تھے نہ معلوم کیا اسباب ہوئے کہ وہ دوسرے شیخ کی خدمت میں بھی جاکر اصلاح لینے لگے اور ان کے ذہن ودماغ میں انتشار وپراگندگی پیدا ہونے لگی انہوں نے پریشان ہوکر آپ کی طرف رجوع کیا اور اپناحال لکھا حضرت مولانا کو اس پر ملال ہوا اور فورا جواب عنایت فرمایا اور ان کی اس حرکت پر ملامت کی اوربعد میں تحریر کیا:
’’جوکچھ انہوں نے بتلایا میرے نزدیک قبل از وقت ہے بلکہ مناسب بھی نہیں بہتر یہ ہے کہ تم اسم ذات یک ضربی تین ہزار مرتبہ پڑھا کرو اور اس سے پہلے تین سو مرتبہ نفی اثبات ملاحظہ اور ضرب کے ساتھ پڑھتے رہو باقی رہادنیا میں رہ کر تارک الدنیا ہونا یہ ناممکن ہے البتہ دنیا کو دین کے لئے صرف کرو اپنے اہل وعیال کی خبر گیری اور اہل حقوق کے حقوق کی ادائیگی محض خدا وند تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کرتے رہو۔‘‘
مولوی لطیف احمد صاحب کو جو آپ سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے اور جن کی زندگی میں صالح انقلاب اور آپ سے تعلق کی بناپر ارتداد سے بچنے کی اور کمال ایمان حاصل کرنے کی صورت پیدا ہوئی ان کو آپ سے تعلق کی بناپر اہل بدعت نے روحانی جسمانی تکلیفیں پہنچائیں اس پریشان کن اور تکلیف دہ اور اذیت ناک اور وحشت ناک صورت حال کے پیش نظر آپ نے ان کو تحریر فرمایا: