ذکر کے متعلق اور مراقبہ کی کیفیت اور نشست کو پوچھنے والے کو تحریر کرتے ہیں:
’’ذکر چار زانو بیٹھ کر کرنا چاہئے مراقبہ کے لئے کوئی بیٹھک مخصوص نہیں ذکر اسم ذات یک ضربی کرنا چاہئے۔‘‘
آپ کے ایک مرید اپنے حالات اس طرح لکھتے ہیں:ذکر میں وہ لذت نہیں آتی جو پہلے آتی تھی اس لئے مواظبت دشوار ہے۔
آپ نے اس خط کا جواب اس طرح دیا:
’’مقصود اصلی ذکر ہے خواہ طبیعت لگے یا نہ لگے پراگندہ ومنتشر ہو یا دلجمعی اپنے معمولات کو ہر حال میں پورا کرنا چاہئے یہ غلط راستہ ہے کہ ذوق وشوق ہو تو اوراد پورے کئے جاویں ورنہ پورے نہ کئے جائیں، ذوق وشوق نہ مقصود ہے نہ اختیاری امر ہے جو اپنا کام ہے وہ کئے جاویں اور جو عطائے حق ہے اس کو اسی کے سپرد رکھیں بدون دلبستگی کے ذکر پر مداومت زیادہ مفید اور موجب اجر ہے، ذوق وشوق کے ساتھ ہر شخص کام کیا کرتاہے مگر عبدیت اسی وقت معلوم ہوتی ہے کہ بلا ذوق وشوق بھی ذکر پر مداومت کی جائے۔‘‘
ایک صاحب نے آپ کی خدمت میں تحریر کیا کہ تہجد کی پابندی نہیں ہوپاتی آپ نے اس کا جواب دیا:
’’تم نے لکھاکہ نماز تہجد نہیں ہوتی میں دعا کرتاہوں کہ حق تعالیٰ تم کو ہمت اور توفیق دے بات یہ ہے کہ ہر کام ہمت سے ہوتاہے جب آدمی آرام طلبی میں پڑجاتا ہے اور دنیوی لذات کی طرف مائل ہوتو کوئی کام دینی ودنیوی نہیں ہوسکتا لہٰذا ہمت کرکے کام کرو۔‘‘
ایک دوسرے مکتوب گرامی میں اوراد اور وظائف کااہتمام کرنے اور دنیا میں انہماک سے منع کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’جب انسان کسی کام میں مشغول ہوتاہے تو دوسری طرف سے مشغولی کم ہوجاتی ہے خصوصا دین ودنیا باہم متضاد ہیں دنیا میں انہماک شوق الی اللہ سے مانع ہوتاہے اور اس کے چھوٹنے کے لئے تو ایک بہانہ چاہئے لہٰذا نہایت رغبت کے ساتھ اپنے وظائف واوراد میں مشغول ہوجاویں حق تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔‘‘
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضر ت مولانا سے بیعت تھے اور بعد میں مجاز بھی ہوئے، انہوں نے ایک بار ایک طویل عریضہ تحریر کیا جس میں اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار اور حضرت مولانا کی بلند الفاظ میں تعریف وتوصیف اور اپنے حسن احوال اور کیفیات وواردات کا تفصیلی بیان تھا ااور آخر میں تہجد کی پابندی کرنے کی دعا کی درخواست کی تھی اس مکتوب کا حضرت مولانا نے جو جواب مرحمت فرمایا اس کے جستہ جستہ ٹکڑے ملاحظہ ہوں:
’’تم نے جو کچھ میرے متعلق لکھا اور خیال کیا وہ میری حیثیت سے بہت بالا تر ہے، میں ہیچ ہوں مگر دعا گو ہوں ، اللہ تعالیٰ شانہ اگر لطف وکرم کا معاملہ فرماویں تو کیا عجب ہے ورنہ خدا جانے کیاحال ہوگا‘‘۔
اپنے مخلص دوستوں کے حسن ظن پر ایک قسم کا اعتماد کئے ہوئے بیٹھاہوں جو تغیرات اور حالات پیش آویں ان کی طرف توجہ اور التفات کی ضرورت نہیں سب کیفیات بحمداللہ بہتر ہیں اپنے اصلی کام میں مشغول رہنا چاہئے، رات کے اٹھنے کی مداومت بھی انشاء اللہ نصیب ہوگی اور کبھی کبھی اس کا فوت ہونا موجب نقصان نہیں۔(اکابر کے خطوط)
ایک صاحب سید شمس الحسن جو آپ سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے اور ذکر وشغل کے پابند تھے مگر حالات وواردات پیش