لئے مدرسہ مظاہر علوم میں پہنچا حضرت نے جس اطمینان وبشاشت کے ساتھ میرے ہر سوال کا جواب دیا اور اس کی سند کے طور پرمختلف اور مستند کتب فقہیہ سے اس کی تائید ثابت کرکے دکھلائی اس سے حضرت کے تبحر علمی اور صدق نیت کا میرے دل پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ عین سی محبت میں حضرت کی عظمت ومحبت کامیرے دل میں گویا بیج بوگیا۔‘‘
یہی مولوی عبداللہ جان ہیں جن کو مولانا محمد یحیٰ صاحب نے اس پر آمادہ کیا کہ وہ حضرت مولانا سے بیعت ہوجائیں وہ حضرت کے قائل ہوگئے تھے مگر بیعت وارادت کے قائل نہ تھے ایک دن تصوف پر اپنے اعتراضات لے کر حاضر خدمت ہوئے اور دریافت کیا کہ حضرت بیعت کی حقیقت اورضرورت کیا ہے؟ حضرت مولانا نے جواب دیا:
’’بیعت میں مرید اللہ تعالیٰ سے اجتناب منہیات اور تعمیل اوامر شرعیہ کا عہد کرتاہے اور مراد اس عہد کا گواہ بنتاہے اوربس‘‘۔
مولوی عبداللہ جان صاحب وکیل کہتے ہیں، مراد کا لفظ پیر کے معنوں میں اسی روز میں نے پہلی دفعہ سنا اس جواب پر میں مبہوت ساہوکر دم بخود رہ گیا۔
اس کے بعد عبداللہ جان صاحب وکیل بیعت وارادت کے قائل ہوگئے اور انہوں نے حضرت مولاناسے بیعت ہونے کو عرض کیا آپ نے پہلے عذر کیا مگر وکیل صاحب کے اصرار پر راضی ہوگئے اور بعد عصر بیعت فرمایا وکیل صاحب کہتے ہیں:
’’حضرت مسجد میں تشریف لائے اور میں ساتھ تھا حضرت نے فرمایا آؤ پھر وہ کام کریں، چنانچہ بالکل تنہائی میں حضرت نے مصافحہ کے طورپر میرے اور اپنے ہاتھ ملاکر مجھے بیعت کیا اور آخریہ جملہ کہہ کر کہ میں بیعت کرتاہوں (حضرت مولانا)خلیل احمد کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کھینچ لئے اور فرمایا کہ بس یہ ہے بیعت۔‘‘ میرے دل پر دوران بیعت میں مطلق کوئی اثر کسی قسم کا نہ تھا مگر اس آخری جملہ پر دفعۃ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے چہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں اور خود مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا چہرہ بالکل زرد پڑ گیا ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۵۷)
مولوی لطیف احمد صاحب حضرت رائے پوری سے بیعت تھے مگر طبیعت اتنی آزاد پائی تھی کہ کسی طرح خانقاہ میں نہ رک سکے اور سیروسیاحت کی خاطر دور دراز علاقوں کی خاک چھانی اور غلط قسم کے لوگوں کے چکر میں رہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ارتداد کی طرف میلان طبع ہوگیا ایک بڑے پادری کا رقعہ لے کر پادی مارٹن کے پاس گئے مگر ہدایت اور پھر اس پراستقامت قسمت میں لکھی تھی کہ دل کا میلان حضرت مولانا کی طرف ہوا کہ اس زمانے میں حضرت رائے پوری کا وصال ہوچکاتھا، انہوں نے ایک خط کے ذریعہ حضرت مولانا کو اطلاع کی اور اپنے میلان کا اظہار کیا ، حضرت مولانا نے خط کے ذریعہ ان کی بیعت کے بعد وہ کیا بنے انہیں کے الفاظ میں سنئے:
’’حضرت کا روحانی تصرف ہے جو آج یہ غلام مسلمان ہے ورنہ عرصہ سے کسی گرجے کا پادری بنا بیٹھا ہوتا الحمدللہ کہ حضرت کی دعا سے میری تمامی دنیوی مشکلات کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۴۲۱)
اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جن کے لکھنے کے لئے دفتر چاہئے یہ نمونہ کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ حضرت مولانا کی اسی