وہ اماں جی کو مسجد نبوی پانچوں وقت نماز کے لئے لے جایا کرتی تھی کہ اس کا مکان بھی حضرت قدس سرہٗ کے مکان کے قریب ہی تھا میں نے ایک دفعہ اس بچی کو یہ کہا کہ اری تو بڑی ہوگئی بغیر برقعہ کے نہ آیا کہ اس نے منہ پھیر کر گویا عملی انکار کیا۔زبان سے کچھ نہیں کہا،مسجدمیں جاتے آتے کبھی کبھی سڑک پر وہ نظر پڑ جاتی تھی دوسرے دن جب وہ نظر پڑی تو میں نے پھر ٹوکا کہ میں نے کہا تھا برقع بنانے کو تو نے بنایا نہیں اس نے کوئی حرکت تو نہیں کی مگر چپ ہوکر چلی گئی۔ایک آدھ دن بعد وہ پھر نظر پڑی میں نے آواز دے کر اس کا نام لے کر کہا کہ میں نے تجھے کئی دفعہ برقع بنانے کو کہا تو نے اب تک بنایا نہیں۔اب کے بغیر برقع کے دیکھا تو ایک دھول رسید کروں گا،وہ بجائے اماں جی کو نماز کے لیے لے جانے کے روتی ہوئی گھر چلی گئی اور اماں جی کیاس دن حرم کی نماز اس کے انتظار میں فوت ہوگئی اس کو بلا کر پوچھا تو اس نے سارا قصہ سنا دیا اماں جی نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اور اس سے بڑھ کر ان کے بھائی میرے مخدوم جناب الحاج مقبول احمد بن کا ذکر پہلے بھی آچکا بہت ہی ناراض ہوئے مقدمہ میرے حضرت قدس سرہٗ تک پہنچا اماں جی نے بھی حرم کی نماز کے فوت ہونے پر بہت ہی ناراضگی کا اظہار فرمایا حضرت قدس سرہٗ نے اس لڑکی کو بلایا وہ واقعی یا مصنوعی بہت روتی ہوئی گئی حضرت نے بہت ہی شفقت سے محبت سے پیار سے اس سے فرمایا کہ پیاری بچی !بات یہ ہے کہ تو اس (زکریا)کو تو دیکھ ہی رہی ہے کیسا مسٹنڈین رہا ہے اور وہ کسی کے قابو تو ہے نہیں اگر اس نے تیرے تھپڑ مار دیا تو تو گر پڑے گی اور اگر اس پر میں نے اس کے تھپڑ مارا تو اس پر تو کوئی اثر ہونے کا نہیں الٹی میری ہی انگلیاں دکھ جائیں گی اس لئے میری سمجھ میں تو یوں آوے اچھا یہی ہے کہ تو برقع بنالے ۔
(آپ بیتی نمبر۶)
حضرت مولانا کو اپنے مریدین اور مسترشدین سے باپ کی طرح محبت و شفقت تھی خصوصاً حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی سے مثالی محبت تھی یہ تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ مولانا محمد یحیٰ صاحب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا نے ان کی جگہ لے لی تھی اور باپ کی کمی محسوس ہونے نہیں دیا۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب حضرت کی محبت و شفقت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
’’حضرت قدس سرہٗ کی اپنی علو شان اور جلالت قدر باوجود اس سیہ کار کے ساتھ ابتداء زمانہ تدریس میں تو میری یتیمی کی وجہ سے اور انتہا ء اس سیہ کار کے بذل کے ساتھ اشتغال کی وجہ سے شفقتیں محبتیں اور تعلق بڑھتا ہی رہا کیونکہ میرے حضرت کو بذل کے ساتھ عشق تھا اور اس ناکارہ کو بھی بذل سے ابتداء ہی سے عشق ہی تھا اس وجہ سے حضرت کی شفقتیں بڑھتی ہی چلی گئیں درحقیقت بذل کی تالیف اس ناکارہ پر اﷲ تعالیٰ کا ایک بڑا ہی احسان تھا کہ اس کی وجہ سے میری ساری گندگیوں اور کوتاہیوں پر حضرت التفات نہ فرماتے تھے۔(آپ بیتی نمبر۴/۲۴۰)
اس محبت و شفقت کے متعدد واقعات ہیں صرف ایک واقعہ خود حضرت شیخ کی زبانی سنئے۔
حضرت قدس سرہ کا ہندوستان میں بھی اور مدینہ پاک میں بھی بہت کثرت سے یہ معمول تھا کہ جب کبھی کھانے میں یہ سیہ کار شریک ہوتا تو حضرت قدس سرہٗ کوئی بوٹی یا کباب کا ٹکڑا بہت شفقت سے دست مبارک سے مرحمت فرمایا کرتے تھے مجھے تو کبھی اس کی طرف