ہیں۔
’’کان الشیخ خلیل احمد لہ للمکۃ القریۃ والمشاہدۃ الجیدۃ فی الفقہ والحدیث والید الطولیٰ فی الجدل والخلاف و الرسوخ التام فی علوم الدین والمعرفۃ والیقین‘‘۔
مولانا خلیل احمد کو فقہ و حدیث میں طاقتور ملکہ اور اعلی بصیرت حاصل تھی ،مناظرہ اور اخلاقی مسائل میں دستگاہ،دینی علوم،معرفت اور یقین و توکل میں کامل رسوخ و پختگی حاصل تھی۔
مولانا ان اوصا ف وکمالات اور علمی خصوصیات کے ذکر کرنے کے بعد انکے متعلق یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں:
وکان وفیق الشعور ،ذکی الحسن صادعاً بالحق،صریحاً فی الکلام،فی غیر جفائٍ شدید الاتباع للسنۃ ۔نفوراً عن البدعۃ کثیر الاکرام للضیوف ،عظیم الرفق،باصحابہ یحب الترتیب و النظام فی کل شیئٍ والموظبۃ علی الاوقات ،مشغلاً بخاصۃ نفسہ ولما ینفع فی الدین ،متخیاعن السیاسۃ مع الاھتمام بامور المسلمین والحمیۃ و الغیرۃ فی الدین۔(نزہۃ الخواطر۲۶)
آپ کا شعور و احساس بڑا عمیق اور باریک تھا ،آپ بڑے حساس تھے حق بات کھل کر کہتے تھے صاف گو تھے لیکن تندخو اور ترش نہیں سنت کا بہت اتباع کرنے والے ،بدعت سے بڑے نفور مہمانوں کا بہت اکرام کرنے والے اپنے متعلقین کے ساتھ بڑی نرمی کرنے والے تھے ،ہر چیزمیں نظام و ترتیب ، اوقات کا اہتمام محو نظر رہتا تھا اصلاح نفس اور دینی امور میں مفید اور سود مند باتوںمیں مشغول رہتے تھے ۔ سیاست سے مجتنب تھے باوجود یکہ مسلمانوں کے تمام امور سے دلچسپی لیتے تھے اور دینی غیرت و حمیت رکھتے تھے۔
حضر ت مولانا کے فضل و کمال کے معترف صرف علماء ہندہی نہ تھے بلکہ علماء عرب بھی قائل تھے۔
مصر کے مشہور عالم علامہ رشید(۱) رضا متوفی ۱۳۵۴ھ نے جب ہندوستان کا سفر کیا تھا تو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دار العلوم دیوبند کی زیارت کے علاوہ مظاہر علوم سہارنپور بھی گئے تھے اس وقت حضرت مولانا مدرسہ مظاہر علوم کے صدر مدرس تھے۔علامہ رشید رضا نے اس سفر میں حضرت مولانا سے اپنی ملاقات اور تاثر کا ذکر کیا ہے علامہ کے جو الفاظ ہیںوبعینہٖ درج ذیل کئے جاتے ہیںـ:
ولم انس ولا انسی زیادۃ مدرسۃ مظاھر علوم فی المدینۃ سھارنپور و بلقاء ناظر ھاد اکبر مدرسیھا(مولوی)الشیخ خلیل احمد الذی لم اَرفی علماء الھند الاعلام الشد منہ الصافا ولا ابعد عن التعصب للمشائخ والتقالید وما ذلک الالاخلاصہ وتر دینہ ونور بصیرۃ۔
(۱) علامہ محمدرشید رضا بغدادی الاصل اورحسینی النسب تھے ۔ ۱۲۸۲ھ میں طرابلس الشام میں پیدا ہوئے اپنے وطن میں تعلیم حاصل کی ادب ،حدیث، تاریخ وتفسیر میں ملکہ حاصل کیا۔ ۱۳۱۵ھ میں مصرگئے اور مفتی محمدعبدہ کے سامنے زانوائے تلمذ کیا اور رسالہ ’’المنار‘‘ نکالا اور افتاء کاکام بھی کیاپھر شام گئے لیکن زیادہ قیام نہ کرسکے اور مصر واپس ہوئے مدرسۃ الدعوۃ والارشاد کاقیام عمل میں لائے ہندوستان، یورپ اورحجاز کے سفر کیے۔ ۱۳۵۴ھ میں ایک حادثہ کے شکار ہوگئے کثیر التصانیف تھے ان کی مشہور تصنیفات یہ ہیں:۱۔ رسالہ المنار ۲۔ التفسیر القرآن الکریم ۱۲ جلدیں۔ ۳۔ تاریخ الاستاذ الامام محمد عبدہ ۳ جلدیں۔ ۴۔ نداء للجنس اللطیف۔ ۵۔ الوحی المحمدي ۶۔ یسرالاسلام واصول التشریح العام۔ ۶۔ الخلافہ ۷۔ الوہابیون والحجاز ۸۔ محاورات المصلح والمقلد ۹۔ ذکری الولدالنبوی ۱۰۔ شبہات النصاریٰ وحج الاسلام۔