میں حضرت تھانوی کے ان الفاظ کو تبرک کے طور پر یہاں نقل کرکے عرض کرتا ہوں:
احب الصالحین ولستُ منھم
لعل اﷲ یرزقنی صلاحا
میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری ؒ کے اوصاف و کمالات ان کے علمی مقام ،ان کے حسن سیرت و صورت اور ان کی خصوصیات پر جو بھی لکھ رہا ہوں ،وہ درحقیقت اہل علم ،بزرگانِ دین اور حضرت مولانا نور اﷲ مرقدہٗ کے عالی مقام کو سمجھنے والے حضرات کے مشاہدات ،تاثرات اور اقوال پر مشتمل ہوگا جس کو صرف نقل کرنے والا ہوں۔واﷲ ولی التوفیق دھو حسبنا ونعم الوکیل۔
حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی نے ایک بار مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی سے فرمایا۔
’’میاں ظفر آج جتنے بھی تمھارے سامنے بزرگ ہیں گنگوہ میں ان سب کے ساتھ میری دل لگی اور ہنسی رہا کرتی تھی بجز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے کہ ان کا ادب میں اس وقت بھی نہایت کرتا تھا حالانکہ حضرت مولانا مجھ سے بہت بے تکلف تھے مگرمیں کبھی بے تکلف نہیں ہوا۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۵۳)
ایک مرتبہ مولانا محمد یحییٰ صاحب نے حضرت مولانا سے اپنی عقیدت و احترام اور حضرت مولانا کے کمالات باطنی اور خصوصیات ظاہری کاذکر مولانا ظفر احمد صاحب سے ان الفاظ میں کیاـ:
’’میں حضرت مولانا گنگوہی کی خدمت میں بارہ سال رہا ہوں اور حضرت کے ساتھ جو تعلق مجھے اور حضرت کو مجھ سے تھا وہ بھی سب کو معلوم ہے اس صورت میں غور کرلو کہ مجھے حضرت گنگوہی کی معرفت کس قدر ہوسکتی ہے اس پر جو میں نے حضرت کے بعد مولاناخلیل احمد صاحب کو اپنا شیخ بنایا اور ان کی طرف رجوع کیا ہے اس سے جو کچھ نتیجہ نکلتا ہے تم خود سمجھ سکتے ہو ،میاں ظفر بات یہ ہے کہ خدا کے نذدیک مراقب کا کم زیادہ ہونا تو کسی کو معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک معرفت و سلوک میں مولانا خلیل احمد صاحب کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے ،میں نے اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کاایک والانامہ حضرت کی بیاض میں خود دیکھا ہے،جسمیں حضرت کی نسبت تحریر فرمایا تھا۔تم میرے سلسلہ کے فخر ہوئے مجھے تم سے بہت خوشی و مسرت ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۵۳)
اس سے بڑھ کر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کا وہ ارشاد گرامی ہے جو انھوں نے ایک بار مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی سے فرمایا۔
’’جب حضرت مولانا گنگوہی کا وصال ہوگیا تو میں نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے عرض کیا کہ مجھے اب تک جو کچھ کبھی دریافت کرنا ہوتا تھا ،حضرت گنگوہی سے دریافت کرلیا کرتا تھا ۔حضرت کے بعد اب جو کچھ دریافت کرنا ہوگا وہ جناب والا سے دریافت کیا کروں گا اور جناب والا کو جواب کی تکلیف کرنا ہوگی۔(تذکرۃ الخلیل:۳۵۳)
مولانا سید عبدالحی صاحب مصنفِ ’’نذھۃ الخواطر‘‘ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی صفات و کمالات کا ذکر ان الفاظ میں کرتے