کردیا،اور اختلاف و انتشار کی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی اور اس کے ذریعہ حضرت حاجی صاحب کے قلب صافی کو حضرت گنگوہیؒ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے میلا کیا جانے لگا حضرت گنگوہی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مولا نا سید کوثر علی صاحب مہاجر مکی کو جو حضرت حاجی صاحب کے مقرب بھی تھے ،اور مولانا رحمت اﷲ صاحب کیرانوی کے ہم جلیس و ہم نشین بھی اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا۔
’’افسوس یہ ہے کہ مولوی رحمت اﷲ (کیرانوی)کی نظر جاتی رہی ورنہ ان سے توقع تھی کہ بغور ملاحظہ فرماکر جس امر پر مواخذہ فرماتے یا قبول فرماتے اطلاع ہوجاتی کیونکہ رسوم بدعات کے باب میں اور مجلس مولود کے باب میں جو کچھ مولوی خلیل احمد سلمہ نے براہین میں لکھا ہے وہی عقیدہ بندہ کا ہے اور سب ہماری جماعت کا اور جو کچھ ’’انوار ساطعہ‘‘میں عبدالسمیع نے لکھا ہے وہ افراط اور تفریط سے مملو ہے کہ حد سے بڑھ گیا ہے تو مولوی رحمت اﷲ سے محاکمہ ہوجاتا کہ وہ عالم ہیں مگر یہ امر تقدیر سے پیش آیا کہ ان کی نگاہ جاتی رہی یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کو فرصت نہیں خصوصاً موسم حج میں ،سو اگر بعد موسم حج تم سے ہوسکے اور مولوی صاحب بھی قبول فرمالیں تو ساری ’’انوار ساطعہ‘‘اور ’’براہین قاطعہ‘‘ان کو بتدریج سنا کر جس جس موقع کورد و قبول سے مدلل فرمادیویں کیا عمدہ ہوجاوے ورنہ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا ار اور جو کچھ ہووے گا سو ہووے گا بندہ کوتو اس کی کچھ پرواہ نہیں کہ خلق برا کہے،مگر اس مخالفت کا ہونا البتہ برا معلوم ہوتا ہے ،اب عبدالسمیع کی مخالفت بہت درجہ بڑھ گئی ہے اور یہ عہد باہم سب مبتدعین کے ہوگیا ہے کہ خواہ کوئی کچھ لکھے رشید احمد کے نام سے سب وشتم کرو سو واﷲاس کا کچھ اندیشہ نہیں کرتا ہوں مگر اس کی (یعنی مدمقابل کی)مخالفت کا بیان کرنا ہے کہ رات دن اسی فکر میں رہتا اور یورپ،دکھن ،بنگالہ پنجاب جہاں جہاںمبتدعین ہیں ان سے مکاتبہ و طرح طرح کے قصے کھڑا کرتا ہے۔‘‘
والسلام رشید احمد
(مکاتیب رشید بحوالہ الفرقان جنوری: ۷۶)
’’براہین قاطعہ‘‘کی تکمیل پر حضرت گنگوہی کی تقریظ اور مولوی محمد حسین صاحب فقیر کے اشعار ہیں اس کے بعد ’’براہین قاطعہ‘‘کے متعلق مولوی نذیر احمد خاں مدرس مدرسہ احمد آباد گجرات کے ایک استفسار پر حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب کا تفصیلی جواب ہے جس میں حضرت والا نے حضرت مولانا خلیل احمدؒ صاحب کے خیالات کی توجہیہ اور تائید فرمائی ہے جو کئی صفحہ پر ہے جس کا یہاں ذکر کرنا باعث طوالت ہے جو صاحب ملاحظہ کرنا چاہیں وہ براہین کے آخر میں ملاحظہ فرمالیں لیکن حضرت گنگوہیؒ کی تقریظ پیش نظرہے۔
’’حامدً او مصلیاً امابعد اس احقر الناس خادم الطلبہ بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ نے اس کتاب مستطاب ’’براہین قاطعہ‘‘کو اول سے آخر تک بغور دیکھا الحق کہ بندہ کے نزدیک یہ رد اور جواب کافی اور الزام وحجت وافی اور فی الواقع براہین قاطعہ اپنے مصنف کی وسعت نور علم دینیہ فصاحت ذکاوفہم و حسن تقریر وبہاتحریر پر دلیل واضح اور اقوال مخالف کے باحسن البیان فاضح ہے لہذا یہ احقر الناس اس کتاب کو بلقب بالدلائل الواضحہ علیٰ کراہتہ المروج من المولودوالفاتحہ کرتا ہے حق تعالیٰ اس کے مؤلف کے علم و فہم میں برکت اور اس کے خیرات و مبشرات میں عموماً اور اس تالیف نفیس میں خصوصاً کرامت قبولیت عطا فرماوے اور اس کو موجب ندامت و توبہ اہل بدعت کا